• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(۱)خلع لینے کی صورت(۲)بچوں کا نا نفقہ(۳)نکاح میں بیوی کو زیور دیا اس کی حیثیت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرانام ***** ہے میری شادی ***** سے مورخہ12-11-2006کو ہوئی ۔ جناب میری بیوی زبان کی بہت زیادہ بدتمیز ہے اور گالیاں بھی بہت زیادہ دیتی ہے۔جناب مسئلہ یہ ہے کہ میں پچھلے سات سال سے اپنی بیوی کے مکان جو کہ اس کے باپ نے اس کو اپنی وراثت میں دیاتھا کے ساتھ رہ رہا تھا اس کا جب دل چاہتا مجھے اپنے گھر سے نکال دیتی اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اس نے مجھے اپنے گھرسے نکالا کئی مرتبہ لڑائی ہوئی کئی مرتبہ صلح ہوئی آخری لڑائی 13/10/2017کو ہوئی جس پر اس نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا میری بچیوں سمیت۔ میں بچیوںکو لے کر اپنی باجی کے گھر آگیا ۔پندرہ دن بعد اس نے میرے اوپر ہائی کورٹ میں کیس کردیا کہ یہ بچوں کو لیے کر بھاگ گیا پولیس نے مجھے بچیوں سمیت ساری رات تھانے میں رکھا صبح ہائی کورٹ میں پیشی تھی جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہو میں نے کہا کہ میں بچیاں اس کو دینے کوتیار ہوں لیکن میں اس کے ساتھ نہیں رہوں گا پھر پندرہ دن کے بعد اس نے مجھ پر فیملی کورٹ میں کیس کردیا خرچے کا جوکہ دس ہزار طے پایا جو کہ میں دیتا ہوں ۔اس چودہ ماہ کے عرصے میں کئی لوگوں نے ہماری صلح کرانے کی کوشش کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔جناب میری طلاق نہ دینے کی دو بڑی وجہیں تھیں۔

۱۔ ایک کہ میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ کیاتھا یا جو بھی میرے پاس تھا یا جو بھی کمایا تھا اس گھر پر ہی ختم کردیا ۔اب میرے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں بچا کہ میں کرائے کا مکان لے سکوں ۔شادی کرسکوں اپنی بچیاں اپنے پاس لاسکوں میں اس وقت اپنی بیوہ بہن کے گھر پر رہتا ہوں اور اس کو پانچ ہزار روپے دیتا ہوں ۔میں اس وقت پندرہ ہزار روپے کی ملازمت کرتا ہوں جن میں سے دس بیوی کو بچیوں کا خرچہ اور پانچ ہزار بہن کو اپنے رہنے کھانے پینے کا دیتا ہوں کیونکہ میں اپنے یتیم بھانجابھانجی کا مال نہیں کھا سکتا اور اس کے علاوہ میرے پاس لاہور میں کوئی ایسا گھر نہیں جو میری بچیوں کی ذمہ داری لے ۔

۲۔ دوسری وجہ اس کی یہ تھی کہ مجھے میرے سسر کی طرف سے اس بات کا خطرہ تھا کہ اگر میں طلاق کا مسئلہ اٹھاتا ہوں تو وہ مجھے یا میرے بہن بھائی کو جانی نقصان پہنچا سکتا ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی ایسا کرچکے ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران وہ مجھے کہتی ہے کہ مجھے طلاق دو میں اس کو کہتا ہوں کہ میں طلاق نہیں دوں گا ۔آپ خلع لو ،اب ایک ماہ پہلے مجھے اس نے کہا کہ میں نے عدالت سے خلع لے لیا ہے اب میں دوسری شادی کررہی ہوں ۔جناب میں یہ چاہتا ہوں کہ خلع کا جو شرعی حکم ہے اس طرح خلع ہو جو کہ وہ لوگ اس پر عمل کریں ،عدالت والی خلع پر نہیں۔

اچھا میں آپ کو ایک بات اور بتادوں کہ جب ہمارا نکاح ہوا تھا تو اس کے باپ نے تین تولے سونا جو کہ ہماری طرف سے تھا زبردستی نکاح نامے پر لکھوا دیا تھا کہ یہ لڑکی کی ملکیت ہے جس پرہمارے بڑوں کی بحث ہوئی پھر ہنگامہ ہو گیا۔آپ مجھے یہ بتائیں کہ

(۱) خلع کیسے ہونا چاہیے ؟(۲) اور میری بچیوں کا کیا ہو گا وہ کس کے پاس رہیں گی ؟(۳)اگر بچیاں اس کے پاس رہتی ہیں تو مجھے کب تک خرچہ دینا ہو گا؟(۴)کیا جو سونے کی رقم سسرنے نکاح میں لکھوائی تھی وہ اور حق مہر کے پیسے مجھے مل سکتے ہیں ؟تاکہ میں کوئی چھوٹا سا کاروبار کرکے اپنی بچیوں کے مستقبل کے بارے میں اچھا سوچ سکوں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ شریعت کی رو سے خلع میاں بیوی دونوں کی رضامندی سے سرانجام پانے والا معاملہ ہے ۔جس میں ایک جانب سے پیشکش ہوتی ہے مثلا میں تم سے اتنی مالیت کے عوض خلع کرتا ہوں /کرتی ہوں۔اور دوسری جانب سے قبول ہوتا ہے ۔اگر آپ شریعت کے مطابق خلع کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے ۔عدالت سے لیا جانے والا یکطرفہ خلع شرعا جائز نہیں۔

۲۔ شرعا بچی نو سال تک ماں کی پروش میں رہے گی اس کے بعد باپ اسے اپنی پروش میں لینے کا مجاز ہے ۔

فی الدر(175)

وغیرهما احق بها حتی تشتهی وقدر بتسع وبه یفتی ۔۔۔۔وعن محمد ان الحکم فی الام والجدۃ کذلک وبه یفتی لکثرۃ الفساد۔

۳۔            بچیوں کی شادی ہونے تک ان کا نفقہ آپ کے ذمے ہے۔

۴۔            تین تولے سونا جو زیر دستی آپ کے سسر نے نکاح نامے میں آپ کی بیوی کی ملکیت لکھوادیا تھا اس کے بار ے میں زبردستی کی نوعیت کیا تھی ؟اور اس بارے میں جب ہنگامہ ہوا تو آخر کار آپ کے بڑوں نے کیا کیا؟ اور کس بات پر صلح ہوئی ؟اور آپ کے سسر کا اس بارے میں کیا مؤقف ہے ؟ان تمام امور کی تفصیل آنے پر اس کے بارے میں کچھ کہا جاسکتا ہے ۔باقی رہا مہر تو اس بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر زیادتی عورت کی جانب سے ہو تو خلع میں حق مہر کی واپسی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے اور اگر مرد کی جانب سے ہو تو مہر کا مطالبہ کرناناجائز ہے اور اس کو استعمال کرنا بھی جائز نہیں ۔

فی الدرمع الرد(95/5مکتبه رشیدیه)

وکرہ تحریما اخذ شیء ان نشذ وان نشذت لا ولو منه نشوذ ایضا ولو باکثر مما اعطاها علی الاوجہ فتح۔وصحح الشمنی کراهۃ الزیادۃ وتعبیر الملتقی لابأس یفید انها تنزیهۃ وبه یحصل التوفیق

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved