- فتوی نمبر: 6-339
- تاریخ: 20 جون 2014
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
ایک مولوی صاحب نے 12 اپریل 2014ء کو میرے بھائی کا نکاح پڑھایا۔ اس وقت لڑکی کا والد، تایا اور چچا مولوی صاحب
کے سامنے تھے اور میرا بھائی اور میرے والد صاحب میرے چچا، میرے پھوپھا اور خالو بھی اس وقت موجود تھے، تو پھر مولوی صاحب نے نکاح کے لیے میرے بھائی کو اپنے سامنے بلایا اور اس وقت مولوی صاحب کے ہاتھ میں نکاح کے کاغذات تھے، جس میں لڑکا اور لڑکی کی ولدیت سمیت نام لکھے ہوئے تھے اور حق مہر بھی لکھا ہوا تھا، پھر مولوی صاحب نے ان کاغذات کو اپنی آنکھوں سے پڑھتے ہوئے خطبہ پڑھا، اس وقت مولوی صاحب کے پاس بہت زیادہ رش تھا، خطبہ مولوی صاحب نے سپیکر میں نہیں پڑھا بلکہ آہستہ آواز سے پڑھا اور اس وقت میں مولوی صاحب کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، اور یہ خطبہ میں نے اپنے کانوں سے سنا۔ اس دوران لڑکی وہاں موجود نہیں تھی بلکہ پاس ہی گھر میں موجود تھی، پھر مولوی صاحب نے میرے بھائی سے نکاح کے کاغذات کو دوہراتے ہوئے نکاح پڑھایا اور میرے بھائی نے اس کو قبول کیا۔ اس وقت لڑکے اور لڑکے کے ولی یعنی گواہ مولوی صاحب کے سامنے تھے، لیکن مولوی صاحب نے اس سے کوئی گواہی نہیں لی، اور میرے بھائی سے بھی مولوی صاحب نے ایک مرتبہ گواہی لی۔
اس کے کچھ دنوں بعد ہمارے ایک رشتہ دار نے کہا کہ یہ نکاح نہیں ہوا ، کیونکہ مولوی صاحب نے خطبہ نہیں پڑھا۔ اور یہ بات اس نے پورے خاندان میں پھیلا دی۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا حل ہمیں لکھ کر دیں اور اس پر مہر بھی لگا کر دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
نکاح میں ایجاب و قبول سے پہلے خطبہ پڑھنا مسنون ہے شرط نہیں۔ نکاح بغیر خطبہ کے بھی درست ہو جاتا ہے۔ لہذا بعض لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ بغیر خطبہ کے نکاح نہیں ہوا۔
و يندب إعلانه و تقديم خطبة و كونه في مسجد يوم جمعة الخ. (الدر: 1/ 75)
(و ينعقد) متلبساً (بإيجاب) من أحدهما (و قبول من الآخر). (الدر: 1/ 78)
© Copyright 2024, All Rights Reserved