• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(۱) خطبہ سننے کا حکم (۲)نفس خطبہ کی حیثیت

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ:

1۔ جو شخص جمعہ کے وقت حاضر ہو اسکے لیے خطبہ سننے کا کیا حکم ہے؟

2۔جو شخص جمعہ کی نماز میں شریک ہو اور خطبہ میں شریک نہ ہو اس کا کیا حکم ہے؟ یعنی نفس خطبہ کی حیثیت کیا ہے؟ آیا وہ خطبہ میں شریک نہ ہونے   کی وجہ سے گناہ گار ہوگا؟  اگر ہوگا تو کس چیز کے چھوڑنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ جو شخص جمعہ کے وقت یعنی خطبہ کے وقت مسجد میں حاضر ہو اور اسے خطبہ کی آواز سنائی دے رہی ہو تو  اس کے لیے   خاموشی کے ساتھ  خطبہ سننا اور اگر آواز سنائی نہ دے  رہی ہو تو خاموشی کے ساتھ خطبہ سننے کی کوشش کرنا یعنی  کان لگانا اور توجہ کرنا  واجب ہے۔

2۔ جو شخص جمعہ کی نماز میں شریک ہو اور خطبہ میں شریک نہ ہو تو دیکھا جائے گا کہ یہ شخص خطبہ میں شریک کیوں نہیں ہوا؟ پس اگر یہ شخص  اذان اول کے فوراً بعدجلد ہی تیار ہو کر مسجد کی طرف چلنے لگ پڑا اور پہنچتے پہنچتے اس  سے خطبہ  رہ گیا اور وہ خطبہ میں شریک نہ ہوسکا تو ایسا شخص گناہ گار نہ ہوگا کیونکہ اذان سننے کے بعد خطبہ میں پہنچنا واجب نہ تھا بلکہ خطبہ  (جمعہ) میں حاضر ہونے کی تیاری میں لگنا واجب تھا جس میں اس نے کوتا ہی  نہیں کی۔ اور اگر اس  شخص نے اذان اول سننے کے بعد جمعہ  کی تیاری کرنے میں یا تیاری کرنے کے بعد  مسجد جانے میں کوتاہی کی (خواہ وہ خطبہ سے پہلے ہی کیوں نہ پہنچ جائے) تو ایسا شخص گناہ گار ہوگا کیونکہ اس نے اس سعی (جمعہ کی تیاری یا  تیاری کے بعد مسجد جانے ) میں کوتاہی کی جو اس پر اذان اول کی وجہ سے واجب ہوگئی تھی۔

شامی (2/161) میں ہے:

(‌ووجب ‌سعي ‌إليها وترك البيع) ولو مع السعي، وفي المسجد أعظم وزرا (بالاذان الاول) في الاصح وإن لم يكن في زمن الرسول بل في زمن عثمان

قوله ووجب سعي) ‌لم ‌يقل ‌افترض ‌مع أنه فرض للاختلاف في وقته هل هو الأذان الأول أو الثاني أو العبرة لدخول الوقت؟ بحر.

وحاصله أن السعي نفسه فرض والواجب كونه في وقت الأذان الأول، وبه اندفع ما في النهر من أن الاختلاف في وقته لا يمنع القول بفرضيته كصلاة العصر فرض إجماعا مع الاختلاف في وقتها (قوله وترك البيع) أراد به كل عمل ينافي السعي وخصه اتباعا للآية نهر……… واختلفوا في المراد بالأذان الأول فقيل الأول باعتبار المشروعية وهو الذي بين يدي المنبر لأنه الذي كان أولا في زمنه – عليه الصلاة والسلام – وزمن أبي بكر وعمر حتى أحدث عثمان الأذان الثاني على الزوراء حين كثر الناس. والأصح أنه الأول باعتبار الوقت، وهو الذي يكون على المنارة بعد الزوال. اهـ. والزوراء بالمد اسم موضع في المدينة

حاشیۃ الطحطاوی (ص:518) میں ہے:

ترك كل شيء يؤدي ‌إلى ‌الاشتغال ‌عن ‌السعي إليها أو يخل به كالبيع ماشيا إليها لإطلاق الأمر "بالأذان الأول” الواقع بعد الزوال "في الأصح” لحصول الإعلام به لأنه لو انتظر الأذان الثاني الذي عند المنبر تفوته السنة وربما لا يدرك الجمعة لبعد محله وهو اختيار شمس الأئمة الحلواني

ہندیہ (1/149) میں ہے:

ويجب السعي ‌وترك ‌البيع ‌بالأذان الأول، وقال الطحطاوي: يجب السعي ويكره البيع عند أذان المنبر وقال الحسن بن زياد المعتبر هو الأذان على المنارة والأصح أن كل أذان يكون قبل الزوال فهو غير معتبر والمعتبر أول الأذان بعد الزوال سواء كان على المنبر أو على الزوراء، كذا في الكافي

البحر الرائق(2/168) میں ہے:

(قوله ‌ويجب ‌السعي ‌وترك ‌البيع بالأذان الأول) لقوله تعالى {يا أيها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع} [الجمعة: 9] ، وإنما اعتبر الأذان الأول لحصول الإعلام به ومعلوم أنه بعد الزوال إذ الأذان قبله ليس بأذان وهذا القول هو الصحيح في المذهب وقيل العبرة للأذان الثاني الذي يكون بين يدي المنبر؛ لأنه لم يكن في زمنه – عليه الصلاة والسلام – إلا هو، وهو ضعيف؛ لأنه لو اعتبر في وجوب السعي لم يتمكن من السنة القبلية ومن الاستماع بل ربما يخشى عليه فوات الجمعة.

مرقاۃ المفاتیح (2/578) میں ہے:

‌أن ‌السعي ‌قد ‌يكون مشيا كقوله تعالى: {فاسعوا إلى ذكر الله} [الجمعة: 9] وقد يكون عدوا كقوله تعالى: {وجاء من أقصى المدينة رجل يسعى} [يس: 20] وقد يكون عملا كقوله تعالى: {وأن ليس للإنسان إلا ما سعى} [النجم: 39] ثم من خاف التكبيرة الأولى فقيل: إنه يسرع، فإن عمر رضي الله عنه سمع الإقامة بالبقيع فأسرع إلى المسجد، وقيل: إنه يهرول، ومنهم من اختار أن يمشي على وقار للحديث، لأن من قصد الصلاة فكأنه في الصلاة، وذلك إذا لم يقع منه تقصير اهـ

شامی (2/159) میں ہے:

(وكل ‌ما ‌حرم ‌في ‌الصلاة حرم فيها) أي في الخطبة خلاصة وغيرها فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف بل يجب عليه أن يستمع ويسكت (بلا فرق بين قريب وبعيد) في الأصح محيط ……… وكذا يجب الاستماع لسائر الخطب كخطبة نكاح وخطبة عيد وختم على المعتمد

حاشیۃ الطحطاوی(519)   میں ہے:

وفي الخلاصة ‌كل ‌ما ‌حرم في الصلاة حرم حال الخطبة ولو أمرا بمعروف وفي السيد استماع الخطبة من أولها إلى آخرها واجب وإن كان فيها ذكر الولاة وهو الأصح نهر وكذا استماع سائر الخطب كخطبة النكاح والختم

فتاویٰ محمودیہ (8/209) میں ہے:

سوال:  عیدین اور جمعہ کا خطبہ فرض ہے یا واجب یا سنت ومستحب ہے اور اس کا سننا کیسا ہے؟

جواب: جمعہ کا خطبہ شرط (فرض ) ہے اور عیدین کا سنت ہے۔ حاضرین کے لیے ہر دو کا سننا واجب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved