• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کنایہ الفاظ کی وجہ سے وصف میں اضافہ

استفتاء

میری شادی 20 جون 2014ء کو سید *** *** کے ساتھ ہوئی، شادی کے فوراً بعد وہ اپنے ساتھ  دبئی لے گئے۔ 26 دن میں ان کے ساتھ ہنسی خوشی رہی، پھر یہ کہہ کر پاکستان  بجوایا کہ 15 دن تک مجھے بلاتے ہیں، آپ  اپنی فیملی سے مل لو اور میں اپنے گھر سے ہو آتا ہوں، میں انتظار کرتی رہی، ان سے جب بات ہوتی، میں کہتی کہ مجھے بلا لیں میں آپ کی بیوی ہوں، انہوں نے اپنے مسائل بتانے شروع کر دیے کہ میں مشکل میں ہوں ابھی وقت لگے گا، انتظار کرو، بیوی ہونے کے ناتے میں ان کا انتظار کرتی رہی، پھر 20 دسمبر کو میری بات ہوئی کہ انہوں نے کہا میں لیبیا جا رہا ہوں، آ کے بات کروں گا، تم پلیز میرے فون پر کال، میسج نہ کرنا، 20 دن تک واپس آؤں گا تو بات ہو گی، میں نے کہا ٹھیک ہے، میں اس اطمینان کے ساتھ انتظار کرتی رہی کہ ان کی کال آئی گی، لیکن نہ انہوں نے رابطہ کیا، نہ کال اور *** کو ان کا میسج آیا:

"السلام علیکم میں نے بہت سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے میں *** کے قابل نہیں رہا، اس لیے میں *** کو مجبوری سے باندھنا نہیں چاہتا، میں اسلام میں اسے ظلم سمجھتا ہوں، اس کا حق ہے کہ وہ کسی اچھے انسان کے ساتھ زندگی گذارے، میں ٹھیک آدمی نہیں ہوں، اس لیے "میں اسے آزاد کرتا ہوں”، اللہ اسے  خوش رکھے، "وہ میری طرف سے آزاد ہے” میں شرم کی وجہ سے بات نہیں کر سکتا، اس لیے معافی مانگتا ہوں، آپ لوگ پلیز مجھے معاف کر دیں، مجھے لگتا ہے یہ ٹھیک نہیں، مگر *** کے لیے یہ ٹھیک ہے، اس لیے  "اسے آزاد کر دیا”۔

یہ میسج میں نے پڑھتے ہی اپنے شوہر کو میسج کیا ، کال کی تو انہوں نے نہیں اٹھائی، میں نے انہیں کہا کہ:  آپ میرے ساتھ بات کرو پلیز میں آپ کی بیوی ہوں، اگر آپ کو کچھ ہوا ہے تو میں آپ کو اس حالت میں نہیں چھوڑ سکتی، آپ میرے شوہر ہو، اس طرح نہیں چھوڑ سکتی، زندگی میں اونچ نیچ آتی ہے، آپ بات کرو۔

جواب میں *** نے کہا:اب نہیں ہو، مجھے کال، میسج نہ کروں، میرا دماغ خراب ہے، میں تمہیں خراب نہیں کرنا چاہتا، اور کسی کو بھی میں اب اکیلا ہوں، تم خوش رہو، اب میرا تمہارا رشتہ نہیں رہا، اب میں تمہارا یا کسی کا بھی خاوند نہیں ہو سکتا، یہ اسلام میں جائز نہیں۔

*** : کیا مطلب؟ آپ خود سے فیصلہ نہ کریں، اگر آپ کی جگہ میں بیمار ہو جاؤں تو میں آپ نہیں چھوڑ سکتی، آپ میرے خاوند ہو۔

***: میں آدمی نہیں رہا، پلیز تم کسی اور سے شادی کر لو، میں کسی پر ظلم نہیں کرنا چاہتا، اللہ تمہیں ہر خوشی دے اور پلیز اب بس مجھے بھول جاؤ، میں اب کسی کا نہیں۔

***: میں ہر دکھ سکھ میں آپ کے ساتھ ہوں، پلیز آپ غلط نہیں سوچھو۔

***: بس اب آخری بار سلام، مجھے معاف کر دینا، میں نے اچھا نہیں کیا اپنے ساتھ۔ خدا حافظ

اس کے بعد میں بہت دفعہ اللہ کا واسطہ دیتی رہی، میسج کرتی رہی، *** *** نے میرے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم تو چاہ رہے ہیں کہ لڑکی واپس چلی جائے اور گھر آباد ہو جائے، لیکن شرعی حوالے سے یہ واضح کروانا

چاہتے ہیں کہ اس وقت نکاح کی حیثیت کیا ہے؟ تاکہ اس حساب سے اگلا لائمہ عمل طے کیا جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائنہ واقع ہوئی ہے، جس کی وجہ سے پہلا نکاح ختم ہو گیا، میاں بیوی دوبارہ اکٹھا رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرنا ضروری ہو گا۔ واضح رہے کہ آئندہ کے لیے خاوند کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔

توجیہ: خاوند کے میسج کا پہلا جملہ "میں اسے آزاد کرتا ہوں” طلاقِ صریح رجعی ہے بعد کے الفاظ میں سے "وہ میری طرف سے آزاد ہے اور میرا تمہارا رشتہ نہیں رہا” کنایہ ہیں، جن میں عدد میں اضافے کی بجائے صرف وصف میں اضافہ ہو گا، اور پہلی طلاق بائنہ بن جائے۔ باقی رہا پہلے میسج کا آخری جملہ "اس لیے اسے آزاد کر دیا” یہ اگرچہ  صریح ہے لیکن یہ پہلی طلاق کی خبر ہے، اس لیے اس سے کوئی نئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved