• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کنایات میں استقبال کے صیغے سے طلاق کا وقوع

استفتاء

گھریلو ناچاکیوں کی وجہ سے خاوند نے بیوی سے کہا ’’ اب اگر تم نے میرے موبائل اور الماری کو ہاتھ لگایا تو تمہیں طلاق ہے ‘‘۔ اس کہنے سے اگلے ہی دن خاوند نے اپنے موبائل سے فون ملا کر لڑکی کی اس کے والد سے بات کرادی۔ کیا اس وجہ سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ پھر خاوند نے کہا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے۔ اور بیوی اس کے ساتھ ہی رہی۔

کچھ عرصہ بعد گھریلو ناچاکیاں دوبارہ شروع ہوئیں جو بڑھتی ہی رہیں۔ ایک دن خاوند بیوی کو اس کے میکے چھوڑ گیا ملنے کے لیے۔ لیکن میکے والوں نے کہا کہ اب معاملہ حد سے تجاوز کر گیا ہے۔ لہذا اب تم دوبارہ واپس نہ جاؤ اور اس کے خاوند کو کہہ دیا کہ ہم پہلے اس کا علاج کروانا چاہتے ہیں لہذا تم اسے لینے مت آؤ۔ جس کی وجہ سے خاوند لینے نہیں آیا۔ تقریباً دو ہفتوں بعد اس لڑکی کو کچھ سامان کی ضرورت پڑی جو وہ اپنے سسرال جاکر لے آئی۔ جس کے بعد خاوند نے اسے موبائل پر میسج کیے جو درج ذیل ہیں:

(۱) آج 12- 12- 12 کی تاریخ ہے جو سو سال کے بعد آتی ہے اگر آج تم نہ آئی گھر تو پھر کبھی نہیں آؤ گی۔ (۲) تم سب کچھ لے گئی ہو۔ اب میں کبھی نہیں ملوں گا۔ میں سمجھا تم آگئی ہو گھر، لیکن تم آنا ہی نہیں چاہتی۔ (۳) میں کبھی نہیں لینے آؤں گا، کبھی نہیں،کبھی نہیں۔ آنا ہوگا جب مرضی آجانا۔ (۴) تم نے آنا ہے آجانا جب مرضی۔ (۵) Bye for ever (ہمیشہ کے لیے خدا حافظ)۔ (۶) اگر آج تم نہ آئی تو پھر تمہارا باپ بھی کہے گا تو نہیں رکھوں گا۔

ان میسجوں کے باوجود عورت آج تک بھی شوہر کے گھر واپس نہیں گئی۔ برائے مہربانی یہ بتائیں کہ کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟ اور کیا عورت کے لیے اسی خاوند کے پاس جانا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو طلاق بائنہ واقع ہوئی ہیں۔ اگر دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔ آئندہ کے لیے خاوند کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا۔

توجیہ: پہلی طلاق مشروط تھی جو شرط پائے جانے پر واقع ہوئی۔ اس کے بعد خاوند نے جو الفاظ میسج پر ارسال کیے تھے ان میں سے تمام الفاظ مستقبل کےصیغے ہیں۔ اگر ان کو کنایہ کے لیے مانا جائے جیسا کہ فقہ اسلامی میں کنایات کی قسم ثالث میں ’’ میں اس کو ہرگز اپنے پاس نہ رکھوں گا ‘‘اور ’’ میں اسے نہیں بساؤں گا ‘‘ہیں تو ان میں کسی ایک سے بھی ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔ ورنہ یہ الفاظ  Bye for ever ( ہمیشہ کے لیے خدا حافظ) جو کہ نہ رد کے لیے اور نہ سب کے لیے ہیں اور ان سے مقصود فراق اور جدائی کا اظہار بھی ہوتا ہے خصوصاً ’’ ہمیشہ ‘‘اس لیے یہ کنایہ کی قسم ثالث ہوں گے اور ان سے حالت غضب اور مذاکرہ میں بلا نیت طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اور مذکورہ صورت میں سائل ظاہر ہے کہ حالت اعتدال میں نہیں تھا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved