- فتوی نمبر: 8-3
- تاریخ: 11 دسمبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
چودھری پلازہ میں ایک دکان مالک پلازہ کے بھائی کے پاس کرایہ پر ہے جس میں وہ قسطوں پر اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ ان میں دوسری چیزوں کے علاوہ ٹی وی، LCD وغیرہ بھی فروخت کرتے ہیں۔ اگر کوئی گاہک قسط کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو اسے جرمانہ (پینالٹی) بھی ڈالتے ہیں اور سود بھی لیتے ہیں اور اس کا تجربہ بھی تنویر احمد صاحب کو ہوا کہ ان کے ایک دوست نے کوئی چیز قسطوں پر لی اور جب ایک دو قسطیں انہوں نے ادا نہ کیں تو انہیں دو ہزار روپے جرمانہ ڈال دیا گیا جو انہیں ادا کرنا پڑا۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ایسے شخص کو جو دکان میں ٹی وی، LCD وغیرہ فروخت کرتا ہو اور قسط کی تاخیر کی صورت میں جرمانہ لیتا ہو اور سودی معاملہ کرتا ہو دکان کرایہ پر دینا شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
چونکہ قسطوں پر کاروبار کرنا جائز ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو دکان کرایہ پر دینا جائز ہے۔ اب اگر دکاندار اس میں سودی معاملہ کرتا ہے یا ٹیلی ویژن فروخت کرتا ہے تو اس کا گناہ دکاندار پر ہے آپ پر نہیں ہے۔
(١) الفتاویٰ العالمگیریة: ٤/٤٥٠، الفصل الرایع في فساد الإجارة إذا کان مشغولاً بغیره):
”و إذا استأجر الذمي من المسلم داراً یسکنها، فلا بأس بذلک وإن شرب فیها الخمر، أو عَبدَ فِیها الصلیب، أو أدخل فیها الخنازیر ولم یلحق المسلم في ذلک بأس، لأن المسلم لایؤاجرها لذلک، إنما آجرها للسکنی، کذا في المحیط.”
(٢) الهدایة: (٣/٣١ کتاب البیوع طبع المصباح):
”ویجوز البیع بثمن حال و مؤجل إذا کان الأجل معلوماً ولا بد أن یکون الأجل معلوماً لأن الجهالة فیها مانعة عن التسلیم الواجب بالعقد فهذا یطالبه في قریب المدة و هذا یسلم فی بعیدها۔”
(٣) شرح المجلة رستم باز:(ص ١٢٦)
(المادة ٢٥١) البیع المطلق ینعقد معجلاً أما إذا جری العرف في بلدة علی أن یکون البیع المطلق مؤجلاً أو مقسطاً إلی أجل معلوم ینصرف البیع المطلق إلی ذلک الأجل. مثلاً لو اشتری رجل من السوق شیئاً بدون أن یذکر تعجیل الثمن ولا تأجیله لزم علیه أداء الثمن في الحال أما إذا کان جری العرف والعادة في ذلک المحل بإعطاء جمیع الثمن أو بعض معین منه بعد أسبوع أوشهر لزم اتباع العادة والعرف في ذلک۔ …… واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved