- فتوی نمبر: 3-265
- تاریخ: 11 اگست 2010
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
میں ایک آدمی کو گارمنٹس کا مال فروخت کرتا تھا تو اس کی طرف میرے پندرہ لاکھ مال کے جمع ہو گئے۔ انہوں نے ایک دکان خرید نے کا اظہار کیا، کہا کہ آپ ہمیں مزید مال دیں تاکہ ہم دکان خریدنے میں آسانی ہو اور ہم آپ کے پیسے جلد واپس کر دیں گے ایک دو ماہ گذرنے پر میں نے ان سے کہا کہ میرے آپ کی طرف اٹھارہ لاکھ ہوگئے ہیں آپ مجھے دکان میں آٹھواں حصہ دار بنالیں مگر انہوں نے انکار کر دیا اور مکھے لین دین میں بھی تنگ کرنے لگے۔ میں نے دو سال گذرنے پر انہیں پھر کہا کہ مجھے دکان میں حصہ دار بنا دیں، انہوں نے میری بات مان لی اور اس کا مجھے حصے دار بنا لیا میں نے اس نے کہا کہ آپ نے مجھے دو سال حصے دار نہیں بنایا اب میں اپنے حصے کا کرایہ زیادہ وصول کروں گا۔ انہوں نے وہ دکان کرائے پر دے رکھی ہے۔ اور انہوں نے میرا مطالبہ خوش دلی سے قبول کیا کہ یہ آپ کا حق بنتا ہے اور طے پا گیا اور انہوں نے اشٹام پیپر پر لکھ دیا جس کے تین گواہ ہیں۔ میرا کرایہ زیادہ وصول کرنا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
دو کروڑ میں جس نے دکان لی اور پچیس لاکھ جو آپ نے دیئے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ البتہ یہ بات قابل اعتبار ہے کہ دکان کا آٹھواں حصہ آپ کے پاس بطور لیز ہو اور باقی کے سات حصے دوسری پارٹی کے پاس ہوئے، اب آپ دونوں کی طرف سے یہ دکان آگے کرایہ پر دی گئی ہے جو سرکاری کرایہ سے زائد ہے، حنفیہ کے نزدیک زائد کرایہ پر اس وقت دے سکتے ہیں جب کرایہ پر لینے والے نے اپنی طرف سے اس میں کسی قسم کا اضافہ کیا ہو۔ بعض دیگر ائمہ کے نیزدیک اس کےبغیر بھی دے سکتےہیں۔ اس لیے اس بات کی گنجائز ہے کہ زائد کرایہ لے کر اپنے پاس رکھیں اگر چہ بہتر یہ ہے کہ آپ دونوں دکان پر اپنے پاس سےکچھ اضافہ کر کے زائد کرایہ وصول کریں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved