• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کرائے داروں کے ذرائع آمدنی کی تحقیق

استفتاء

CH پلازہ میں جن لوگوں کو دکانیں/فلیٹ کرایہ پر دیئے جاتے ہیں ان کے ذرائع آمدنی کے بارے میں کوئی خاص تحقیق نہیں کی جاتی کہ ان کی آمدنی جائز ذرائع سے ہے یا ناجائز ذرائع سے۔ آیا دکانیں اور فلیٹ کرائے پر دینے سے پہلے کرایہ دار کی آمدنی کی تحقیق ضروری ہے یا نہیں اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر کرایہ دار کی آمدنی کے حرام یا ناجائز ہونے کے بارے میں کوئی واضح قرینہ نہ ہو تو ایسی حالت میں اس کی آمدنی کے متعلق تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے۔

(١) مشکاة المصابیح، کتاب النکاح، باب الولمیة: ٢/٢٧٩، قدیمی)

”عن أبي هریرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ”إذا دخل أحدکم علی أخیه المسلم، فلیأکل من طعامه ولایسئل، ویشرب من شرابه ولایسئل.”

(٢)مرقاة المفاتیح، کتاب النکاح، باب الولیمة: ٢/٣٧٧، رشیدیه)

قال القاري : فلیأکل من طعامه و لا یسئل”: أي من أین هذا الطعام: لیتبین أنه حلال أم حرام (ویشرب) بالجزم (من شرابه، ولایسئل) فإنه قد یتأذی بالسؤال، و ذلک إذا لم یعلم فسقه کما ينبیٔ عنه قوله: ”علی أخیه المسلم”۔

(٣) مسبوط سرخسي ١٧/٨٣٥)

و حمل فعل المسلم علی الصحة والحل واجب، ما أمکن، إلا أن تقوم البینة۔ …… واللّٰه تعالیٰ اعلم بالصواب۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved