- فتوی نمبر: 29-159
- تاریخ: 27 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات > مصارف زکوۃ کا بیان
استفتاء
دو بہن بھائی ہیں ان کے والدین فوت ہوچکے ہیں، ہم کچھ سالوں سے اس بچی کے لیے زکوٰۃ کے پیسے سے کوئی نہ کوئی چیز خرید لیتے ہیں تاکہ جب اس کی شادی ہو تواس کے جہیز کے لیے پریشانی نہ ہو، اب لڑکا کمانے لگ گیا ہے، بہت اچھا کاروبار ہے، ہر لحاظ سے سیٹل ہوگیا ہے اور اس کی منگنی بھی ہوگئی ہے اور شادی بھی ہونے والی ہے ، وہ اپنی بیوی کے لیے بہترین جہیز اکٹھا کررہا ہے، ہر چیز خود خرید رہا ہے ، بہن کے ساتھ بھی بہترین ہے اس کو بھی ہرچیز خرید کردیتا ہے، بہن اسی کی کفالت میں ہے اور وہ اس کی ہر ضرورت پوری کرتا ہے، جب ہم نے سامان خریدا تھا اس وقت ان کے حالات کا اندازہ نہیں تھا اب حالات معلوم ہوئے ہیں یعنی اب انہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے تو آپ سے پوچھنا تھا کہ اب جب کہ ان کے مالی حالات بہت اچھے ہیں تو جو چیزیں ان کے لیے بنائی تھیں کیا وہ چیزیں ان کو ہی دینا ضروری ہیں یا کسی دوسرے مستحق کو بھی دے سکتے ہیں؟ جبکہ اب ان کو زکوٰۃ نہیں لگتی۔
نوٹ: صرف اپنی زکوٰۃ سے سامان خریدا ہے کسی دوسرے سے زکوٰۃ نہیں لی نیز جس وقت سامان خریدا تھا ہمیں اس وقت ان کے مالی حالات معلوم نہ تھے بس یتیم سمجھ کر خریدا تھا اور بچی کو سامان پر قبضہ نہیں دیا تھا بلکہ اس کو تو ہمارے ارادے کا علم بھی نہیں ہے، بچی کی عمر کے 14 سے 18 سال کے درمیان یہ سامان خریدا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ یہ سامان کسی اور مستحق کو دے سکتے ہیں۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ آپ نے سامان مذکورہ لڑکی کی ملکیت اور قبضہ میں نہیں دیا تھا بلکہ اپنے پاس جمع کرتے رہے تھے اس لیے اس سامان کے مالک آپ ہی ہیں، محض لڑکی کو دینے کی نیت کرنے سے وہ مال آپ کی ملکیت سے نہیں نکلا۔
تبیین الحقائق (1/251) میں ہے:
الزكاة يجب فيها تمليك المال؛ لأن الإيتاء في قوله تعالى {وآتوا الزكاة} يقتضي التمليك
الدر المختار (3/203) میں ہے:
هي تمليك جزء مال عينه الشارع ……….. وشرط صحة أدائها نية مقارنة له ولو حكما أو مقارنة بعزل ما وجب كله أو بعضه ولا يخرج عن العهدة بالعزل، بل بالاداء للفقراء.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved