- فتوی نمبر: 5-118
- تاریخ: 10 ستمبر 2012
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
شفیق آٹوز پر مرمت کے لیے آئی ہوئی موٹر سائیکل کے سلسلے میں ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ خرادیے سے کام کروانا تھا تو اس کے پاس گئے تو دکان بند تھی اس نے فون کرنے پر جواب دیا سامنے دکان پر رکھوا دو انہوں نے اس دکان پر پرزہ رکھوا کر خرادیے کو بتادیا بعد میں وہ اسی دکاندار کی غفلت سے چوری ہوگیا۔ شفیق آٹوز نے اس کا ضمان اسی دکاندار اور خرادیے دونوں پرڈالا۔ تو کیا ایسا کرنا جائز تھا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ پرزہ دکاندار کے پاس امانت تھا۔ اگر اس کی واقعی غفلت تھی اور خرادیے نے وہاں سے سامان اٹھانے میں بلا وجہ تاخیر نہ کی ہو تو وہ اس کی قیمت کا تاوان ادا کرے گا اگر اس تاوان میں سے نصف خرادیے نے اپنی خوشی سے دیا تو جائز ہے۔
1.مجمع الضمانات لأبي محمد بن غانم البغدادي رحمه الله المجلد الأول، ص: 144
دفع ذهبا إلى صائغ ليخذ له سواراً منسوجاً و النسج لا يعمله هذا الصانع. فأصلح الذهب و طوله و دفعه إلى من ينسجه فسرق من الثاني. قالوا: إن كان الأول دفع إلى الثاني بغير أمر المالك و لم يكن الثاني أجيراً للأول و لا تلميذاً له كان للمالك أن يضمن أياًّ شاء في قول أبي يوسف و محمد رحمهم الله… و في قول أبي حنيفة رحمه الله يضمن الأول، أما الثاني فلو سرق منه بعد تمام العمل لا يضمن، لأنه لما فرغ من العمل صارت يده وديعة.
أما مادام في العمل كانت يده يد ضمان، لتصرفه في مال الغير بغير الإذن و عند أبي حنيفة رحمه الله مودع المودع لا يضمن ما لم يتصرف في الوديعة بغير إذن مالكها. انتهى
2.البزازية على هامش الفتاوى الهندية، 6/ 200:
مودع قال: وضعت الوديعة بين يدي، ثم قمت، فنسيتها فضاعت، كان ضامناً.
3.درر الحكام، 2/ 274:
كذلك إذا وضع المستودع الوديعة في غرفة فإن اكتفى بسد بابه و لم يقفله بالمفتاح و سرقت الوديعة فإن كان قفل الباب حفظ في مواضع كهذه يعد توثيقا و حفظاً لا يلزم الضمان. و إن كان معدوداً من الأغفال و التضييع يكون الضمان لازماً. فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved