- فتوی نمبر: 12-370
- تاریخ: 29 اگست 2018
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک عدد پلاٹ رقبہ تقریبادس مرلہ، ملکیت محمد جمشید۔موجودہ قیمت رجسٹری خرچہ،کمیشن ڈیلر وغیرہ 7500000لاکھ روپے ہے ۔ایک دوست نے خود آفر کی ہے کہ جناب جمشید صاحب آپ اس پر مکان بنائیے اور بعد از اںاس کو فروخت کرکے اپنی مزدوری نکال لیں (مزدوری مکان بنانے کی ڈیوٹی ہے)بعد ازاں جو منافع حاصل ہو گایعنی پلاٹ کی قیمت نکال کر اورمکان کی تعمیر پر جو خرچہ آیا وہ نکال کر بقایا منافع آپس میں تقسیم کر یں گے۔آپ سے گذارش ہے کہ کیا مذکورہ صورت شرعا جائز ہے؟
وضاحت
صورت مسئلہ یہ ہے کہ سائل کے پاس پلاٹ ہے ایک دوسرے شخص نے یہ آفر کی ہے کہ میں سرمایہ لگاتا ہوں تم اس پر مکان تیار کروا کر بیچو ۔تمہیں تیار کروانے کی اجرت بھی ملے گی اور پھر جب مکان بکے گا تو نفع آدھا آدھا ہو گا
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت شرکت العقد بالعروض کی ہے جو کہ حنابلہ کے قول کے مطابق درست ہے ،معاملات میں توسع کی وجہ سے اس قول کو لینے کی گنجائش ہے البتہ اس کے لیے مذکورہ صورت میں دو تبدیلیاں کرنی پڑیں گی:
۱۔ نفع کے ساتھ آپ کی جو علیحدہ سے تعمیر کروانے کی اجرت طے ہوئی ہے وہ درست نہیں۔ اس کا متبادل یہ ہے کہ آپ نفع کی مقدار بڑھادیں مثلا ستر فیصد کردیں۔
۲۔ دوسرے فریق کی طرف سے سرمایہ طے نہیں ہے ۔وہ پہلے طے کرلیں کہ اتنا سرمایہ لگائیں گے اورمعاملہ کرتے ہوئے عملااتنا سرمایہ لانا بھی ہو گا ۔
چنانچہ مغنی (18/5)میں ہے:
القسم الرابع:ان يشترک مالان وبدن صاحب احدهما فهذا يجمع شرکة ومضاربة۔وهو صحيح فلو کا ن بين رجلين ثلاثة آلاف درهم لاحدهما الف وللاخر الفان فأذن صاحب الالفين لصاحب الالف يتصرف فيها علي ان يکون الربح بينهما نصفين صح ۔ويکون لصاحب الالف ثلث الربح بحق ماله والباقي وهو ثلثا الربح بينهما لصاحب الالفين ثلاثة ارباعه وللعامل ربعه وذلک لانه جعل له نصف الربح فجعلناه ستة اسهم منها ثلاثة للعامل حصة ماله سهمان وسهم يستحقه بعمله في مال شريکه وحصة مال شريکه اربعة اسهم للعامل سهم وهو الربع ۔
ايضافيه(13/5)
فصل :ولايجوز ان يکون رأس مال الشرکة مجهولا ولا جزافا لانه لا بد من الرجوع به عند المفاصلةولايمکن مع الجهل والجزاف ولا يجوز بمال غائب ولا دين لانه لايمکن التصرف فيه في الحال وهو مقصود الشرکة۔
وايضا فيه(12-5)
وعن أحمد روايةاخري ان الشرکة والمضاربة تجوز بالعروض وتجعل قيمتها وقت العقد رأس المال قال احمد إذا اشترکا في العروض يقسم الربح علي ما اشترطا،وقال الاثرم سمعت ابا عبد الله يسئل عن المضاربة بالمتاع قال جائز،فظاهر هذا صحة الشرکة بها، اختار هذا أبو بکر وأبو الخطاب وهو قول مالک وابن أبي ليلي وبه قال في المضاربة طاوس والاوزاعي وحماد بن أبي سليمان لان مقصود الشرکة جواز تصرفهما في المالين جميعا وکون ربح المالين بينهما وهذا يحصل في العروض کحصوله في الاثمان فيجب ان تصح الشرکة والمضاربة بها کالاثمان (ويرجع کل واحد منهما عندالمفاصلة بقيمة ماله عند العقد کما اننا جعلنا نصاب زکاتها قيمتها)
© Copyright 2024, All Rights Reserved