- فتوی نمبر: 31-41
- تاریخ: 21 اپریل 2025
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
(1)اگر کوئی شخص کوئی کتاب خرید لے تو کیا وہ (مصنف کی اجازت کے بغیر)اس کتاب کو سکین کرکے پی ڈی ایف (pdf)شکل بنا کر افادہ عام کے لیے (بغیر تجارت یا مالی منافع کے)دوسرے لوگوں کو دے سکتا ہے اور سوشل میڈیا وغیرہ پر شئیر کرسکتا ہے؟ فقہ البیوع 1/286میں مفتی تقی عثمانی مدظلہ نے بھی اس پر بحث فرمائی ہے۔
وبالجملة فالراجح عندنا والله سبحانه اعلم ان حق الابتكار والتاليف حق معتبر شرعا فلا يجوز لاحد ان يتصرف في هذا الحق بدون اذن من المبتكر او المولف وينطبق ذلك على حقوق برامج الكمبيوتر ايضا ولكن التعدي على هذا الحق انما يتصور اذا انتج احد مثل ذلك المنتج او الكتاب او البرنامج بشكل واسع للتجارة فيه او بقصد الاسترباح اما اذا صوره لاستعماله الشخصى او ليهبه الى بعض اصدقائه بدون عوض فان ذلك ليس من التعدي على حق البتكارفما توغل فيه نشرة الكتب و منتجو برامج المكبيوتر من منع الناس من تصوير الكاب او قرض الكمبيوتر او جزء منه لاستفادة شخصية وليس للتجارة فانه لا مبرر له اصلا وهذا ما ينطبق عليه ان مالك الكتاب او القرص يملك ما شاء فيه من التصرفات للاستفادة الشخصية وليس للمنتج ان يمنعه منها وانما الممنوع ان ينتج مثلها بقصد الاسترباح والتجارة فيه بدون اذن منه والله سبحانه و تعالى اعلم
2)بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ اگر کتاب حال میں چھپی ہو اور کوئی شخص اس کی برقی شکل پی ڈی ایف (pdf)بنا کر شیئر کر دے تو پھر لوگ اس کتاب کو خریدتے نہیں ،تو اس سے مصنف کے نفع میں کمی ہوتی ہے تو کیا ان کا اشکال ٹھیک ہے؟
3)اور اگر کوئی شخص کسی کتاب کی اشاعت کے تھوڑے ہی دن بعد پی ڈی ایف(pdf)بنا کر شیئر کردے تو کیا یہ جائز ہے۔
4)اور اگر نمبر2میں مذکور اشکال کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس کا کیا معیار ہو گا کہ کتاب کی اشاعت کی کتنی مدت بعد پی ڈی ایف (pdf)بنا سکتے ہیں ،ایک سال ،دو سال یا پانچ سال بعد؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)اگر مصنف کتاب چھپوانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس پر نفع بھی کمانا چاہتا ہے تو مصنف کی اجازت کے بغیر اور اگر کتاب چھپ گئی ہے تو طابع(پبلشر) کی اجازت کے بغیر کسی کتاب کی پی ڈی ایف بنا کر عوامی طور پرسوشل میڈیا کے ذریعے شئیر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے مصنف یا طابع کا نقصان ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنی مملوکہ کتاب کی پی ڈی ایف بنا کر ایک آدھ شخص کو استعمال کرنے کے لیے دیتا ہے ، تو اس کی اجازت ہے کیونکہ ایسا کرنے میں مصنف یا طابع کا کوئی نقصان نہیں۔
نوٹ:حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے فقہ البیوع 1/286 پر جو بحث فرمائی ہے اس سے ان کے نزدیک تجارت کے لیے پی ڈی ایف بنانے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے لیکن شخصی فائدے کے لیے پی ڈی ایف بنانے کا جواز معلوم ہوتا ہے البتہ اگر پی ڈی ایف بنانے کا مقصد نہ تجارت ہو اور نہ شخصی فائدہ ہو جیسےسوشل میڈیا پرعام کرنا وغیرہ تاہم اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے مصنف یا طابع کا نقصان ہوتا ہو تو یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟ اس بارے میں حضرت مفتی صاحب کی عبارت صریح نہیں ہے لیکن حضرت کے نزدیک چونکہ تجارت کے لیے پی ڈی ایف بنانے کے ناجائز ہونے کی علت مصنف یا طابع کا ضرر ہے جیساکہ فقہ البیوع 1/285 کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے:
قلة الربح وان لم يكن خسارة ولكنه ضرر وبين الضرروالخسارة فرق واضح
تو مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ کے نزدیک مذکورہ صورت بھی بظاہر ناجائز معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم
توجیہ: ہماری تحقیق میں اگرچہ عام حالات میں کسی کتاب کے حقوق طبع محفوظ کرنا اور دوسروں کو شائع کرنے سے روکنا جائز نہیں لیکن اگر کوئی شخص اپنی مملوکہ کتاب کی پی ڈی ایف تیار کرکے اس پی ڈی ایف کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہے تو اس سے مصنف یا طابع (پبلشر) کو ضرر پہنچتا ہے نیز مصنف یا طابع کی اجازت کے بغیر پی ڈی ایف بنانا قانوناً بھی ممنوع ہے۔لہٰذا مصنف یا طابع (پبلشر) کی اجازت کے بغیر کسی کتاب کی پی ڈی ایف بناکر اس کو سوشل میڈیا پر عمومی شیئر کرنا جائز نہیں ہے۔
(2) ان کا یہ اشکال ٹھیک ہے۔
(۳) جائز نہیں۔
(۴) اس کا کوئی لگا بندھا معیار تو نہیں ہے البتہ اتنی بات ہے کہ غالب گمان کے مطابق جس کتاب کی اشاعت میں مصنف یا طابع کی دلچسپی نہ رہے اس کی پی ڈی ایف بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کرسکتے ہیں کیونکہ اس صورت میں مصنف یا طابع کا نقصان نہیں۔
فقہی مضامین، مصنفہ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ (ص 445) میں ہے:
عام حالات میں کاپی رائٹ کے تحت دوسروں پر پابندی لگوانی جائز نہیں البتہ بعض خصوصی حالات میں مثلاً اگر کوئی طابع محض پہلے کو نقصان پہنچانے اور تنگ کرنے کے لیے فقط خرچہ کی قیمت پر یا اپنا نقصان کرکے خرچہ سے بھی کم قیمت پر کتاب بازار میں لاتا ہے یا لانے کا اعلان کرتا ہے جب کہ پہلا طابع(یا مصنف) اس کو واجبی نفع پر لارہا ہے تو دوسرے پر حکومت پابندی لگا سکتی ہے اور پہلا طابع دوسرے پر پابندی لگواسکتا ہے۔
الأشباه والنظائر – ابن نجیم(ص72) میں ہے:
القاعدة الخامسة: الضرر يزال
أصلها قوله عليه الصلاة والسلام {لا ضرر ولا ضرار} أخرجه مالك في الموطإ عن عمرو بن يحيى عن أبيه مرسلا، وأخرجه الحاكم في المستدرك والبيهقي والدارقطني من حديث أبي سعيد الخدري، وأخرجه ابن ماجه من حديث ابن عباس وعبادة بن الصامت رضي الله عنهم…………… وفسره في المغرب بأنه لا يضر الرجل أخاه ابتداء ولا جزاء (انتهى)
اوجز المسالک (14/124) میں ہے:
عن عمرو بن يحي عن ابيه ان رسول الله ﷺ قال : لا ضرر و لاضرار
(قوله لا ضرر) خبر بمنعى النهي ، اي لا يضر الانسان اخاه فينقصه شيئا من حقه (ولا ضرار) بكسر اوله اي لا يجازي من ضره بادخال الضرر عليه بل يعفو فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين لكونه مصدر المفاعلة فالاول الحاق مفسدة بالغير والثاني الحاقهسا به على وجه المقابلة . قال ابن عبد البر قيل : هما بمعنى واحد للتاكيد و قيل بمعنى القتل والقتال اي لا يضره ابتداءّ ولا يضاره ان ضره وليصبر فهي مفاعلة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved