- فتوی نمبر: 7-219
- تاریخ: 07 فروری 2015
- عنوانات: حظر و اباحت > تبرکات و مقدس اشیاء
استفتاء
محترم جناب مفتیان کرام گذارش ہے کہ بندہ کو ایک شرعی مسئلہ کے بارے میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے کہ
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کی بعض تصانیف کے اوپر قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ لکھی ہوتی ہے “ذكر رحمت ربك عبده زكريا“۔ کیا اسی طرح کسی اور بزرگ کے بارے میں قرآن سے کوئی آیت لکھنا اور یہ آیت مولانا زکریا رحمہ اللہ کی تصانیف کے اوپر لکھنا، اس کے بارے میں حضرات مفتیان کرام کی کیا رائے ہے کہ یہ صحیح ہے یا نہیں؟
نوٹ: مذکورہ آیت حضرت کے متعلق کتاب “ذکر زکریا” پر چھپی ہے اور حضرت کی زندگی کے بعد چھپی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کتابوں کے سرورق پر جو کوئی آیت لکھنے کا رواج ہے اس میں عام طور سے یہ تعلق ہوتا ہے کہ کتاب کا نام اس آیت کے ایک لفظ یا ایک ترکیب پر مشتمل ہوتا ہے۔کیا ادنیٰ مناسبت مثلاً نام کا ایک ہونا، کیا اس کو بھی آیت کے استعمال کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب ہمیں معلوم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ صورت میں آیت و حدیث کا لکھنا اقتباس نہیں ہے۔
در منتقیٰ میں ہے:
و الاقتباس أن يتضمن الكلام شيئاً من القرآن و الحديث أو المسائل العلمية لا علی أنه منه و يجوز فيه التغيير اليسير …. و كذا استعمله القاضي البيضاوي في أول تفسيره كما أفاده عصام و كذا السيوطي و نقل الإجماع علی جوازه و هو كثير في كلامهم نظماً و نثراً.
عبارت كا حاصل یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے اقتباس جائز ہے اور علماء کے کلام نظم و نثر دونوں میں کثیر الاستعمال ہے۔
اقتباس یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا کلام قرآ ن و حدیث کے الفاظ پر یا مسائل علمیہ پر اس طرح مشتمل ہو کہ وہ قرآن و حدیث کے طور پر نہ ہو۔ یعنی اس کے شروع میں “قال الله تعالی ” يا “قال رسول الله ﷺ” ذکر نہ کرے، تاکہ سننے والے کو یہ خیال نہ ہو کہ آگے فرمانِ خداوندی یا فرمانِ رسول ﷺ کا تذکرہ ہے۔
عبارت سے یہ بات بھی حاصل ہوئی کہ اقتباس کلام کے ضمن میں ہوتا ہے علیحدہ سے کسی آیت کو ذکر کرنا اقتباس نہیں ہوتا، بلکہ آیت قرآن ہونے کی حیثیت پر بر قرار رہتی ہے۔لہذا مذکورہ کتاب میں درمیان کلام کے بجائے ٹائٹل پر علیحدہ سے آیت کو ذکر کرنا اقتباس نہیں ہے۔ اور آیت اپنے قرآنی مفہوم میں بدستور باقی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved