- فتوی نمبر: 22-262
- تاریخ: 02 مئی 2024
- عنوانات: عقائد و نظریات > اسلامی عقائد
استفتاء
ایک عزیز سے بدنظری کے متعلق بات ہوئی تو وہ کہنے لگے یہ اصل بد نظری آنکھ میں ہے، جب یہ بے حیا ہوجائے تب کا م خراب ہوتا ہے، لہٰذا اسےپاک کرو، اگر یہ بے حیا ہوگی تو آپ ماں اور بہن کو بھی جیسا کہ آجکل سامنے آرہا ہے، برے ارادے سے دیکھو گے، لہٰذا جب بھی بڑی عمر کی عورت کو دیکھو تو اسے اپنی ماں سمجھو اور جوان کو دیکھو تو بہن سمجھو، یہی ایک امت ہونے کا مطلب ہے اور یہی اصل آنکھ کی حیا ہے۔ اگر آنکھ میں حیا اور بندے میں غیرت نہیں تو ماں بھی غیر ہے اور اگر یہ ہے تو غیر بھی اپنے ہیں۔
یہ ان کا کہنا ہے، ازراہ کرم آپ ہی کچھ راہنمائی فرمادیں!
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ باتیں خطابیات( Emotional Arguments) کی قبیل سے ہیں، جن کی علمی دنیا میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا حکم صاف صاف ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهم، اے نبی(ﷺ) : ایمان والوں سے فرما دو وہ اپنی نظروں کو جھکائیں۔ اور حضور اکرمﷺ نے بھی نظر کی حفاظت کی بڑے واضح لفظوں میں تلقین فرمائی ہے۔
باقی رہا آنکھوں میں حیا ہونا، وہ تو مطلوب ہے ہی۔ یہ حیا اپنی محرم عورتوں کو دیکھتے ہوئے مطلوب ہے، غير محرم عورت کو دیکھتے وقت یہ حیا کافی نہیں ۔ اگر کافی ہوتی تو اللہ رب العزت صرف حیا کا حکم دیتے، نظر جھکانے کا حکم نہ دیتے۔
————————————————-فقط
© Copyright 2024, All Rights Reserved