استفتاء
دوبہن بھائی ہوں توکیابہن اپنےبھائی کی سامع بن سکتی ہے؟(تفصیلی جواب)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب کوئی غیر محرم ساتھ نہ ہو اور نہ ہی کوئی غیرمحرم عورت کی آواز سن رہا ہو تو عورت اپنے بھائی یا محرم کی سامع بن سکتی ہے۔
درمختار(2/96)میں ہے(وصوتهاعلي الراجح)اس پر شامی میں ہے:
قوله:(وصوتها)معطوف على المستثنى يعني،انه ليس بعورةح.قوله:(على الراجح)عبارة البحر عن الحليةانه الاشبه وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده ومقابله ما في النوازل نغمةالمراةعورة….الخ
نوٹ: راجح قول کے بالمقابل نوازل میں یہ ہے کہ عورت کا نغمہ(آواز)عورت یعنی سترہے۔نوازل کے اس قول پر تفریع کرتے ہوئے علامہ ابن ہمامؒ نے یہ لکھا ہے کہ اس قول کی بنا پر اگر یہ کہا جائے کہ جب عورت نے نماز میں جہرا(بلند آواز)سے قرات کی تو اس کی نماز فاسد ہوگئی تو اس کی بھی وجہ موجودہے۔
چنانچہ فتح القدیر(1/227)میں ہے:
فرع.صرح في النوازل بان نغمة المراةعورةوبني عليه ان تعلمها القران من المراة احب الي من الاعمى قال لان نغمتها عورةولهذا قال عليه الصلاة والسلام التسبيح للرجال والتصفيق للنساء فلايحسن ان يسمعها الرجل انتهى كلامه وعلى هذا لو قيل اذا جهرت بالقراءة في الصلاةفسدت كان متجها ولذا منعهاعليه الصلاةوالسلام من التسبيح بالصوت لاعلام الامام بسهوه الى التصفيق.
لیکن نوازل کےعبارت سےعلامہ ابن ہمامؒ نے جو نتیجہ یعنی نماز کے فاسد ہونے کا اخذ کیا ہےوہ نوازل کی عبارت سےظاہرنہیں۔ کیونکہ خود نوازل میں اس پر جو تفریع کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عورت کا عورت سے قرآن سیکھنا زیادہ پسندیدہ ہے بنسبت نابینا مرد سے۔کیونکہ نابینا مرد اگرچہ عورت کو دیکھ نہیں سکتالیکن اس کی آواز تو سنے گا جبکہ عورت کی آواز ستر ہے لہذا یہ پسندیدہ نہیں کہ عورت کی آواز کو(اجنبی)مرد سنے۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نوازل میں عورت کی آواز کو جو ستر کہا گیا ہے وہ اجنبی مرد کے سننے کے لحاظ سے کہا گیا ہے نہ کہ نماز کے لحاظ سے۔اسی طرح التصفیق للنساء والی روایت میں عورتوں کو تسبیح یعنی بول کر امام کو لقمہ دینےکی وجہ بھی ظاہرایہ ہےکہ عورت کی آواز کو غیر محرم مرد نہ سنیں۔لہذا اس سے بھی عورت کی آواز کے نماز کے لحاظ سے سترہونے پر اور پھر آواز سے قراءت کرنے کی صورت میں نماز کے فاسد ہونے پر استدلال خلاف ظاہر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved