• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا ہر بالغ پر جمعہ کی نماز  کے لیے غسل واجب ہے؟

  • فتوی نمبر: 22-327
  • تاریخ: 06 مئی 2024
  • عنوانات:

استفتاء

رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا : ہر بالغ  کے اوپر  جمعہ  کے دن غسل واجب ہے؟

مذکور ہ حدیث کی تصدیق اور تشریح مطلوب ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ حدیث  صحیح مسلم (1/280) پر موجود ہے اور اس حدیث کی  تشریح فتح الملھم کے حوالے سے مندرجہ  ذیل ہے :

مسلم شریف شریف (1/280) میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله {صلى الله عليه وسلم} قال غسل الجمعة واجبٌ على كل محتلم”

فتح الملهم (4/290) میں ہے:

"وقد اجاب الجمهور عنه بثلاثة أجوبة : أحدها : أن الوجوب كان ونسخ، وثانيها : أنه من قبيل انتهاء الحكم بانتهاء علته كما يفيده حديث ابن عباس رضي الله عنهما أنه سئل عن غسل يوم الجمعة:أواجب هو؟فقال:لا ،ولاكنه أطهر لمن اغتسل ،ومن لم يغتسل فليس بواجب عليه وسأخبركم عن بدأالغسل: كان الناس مجهودين يلبسون الصوف ويعملون ، وكان مسجدهم ضيقا ،فلم آذي بعضهم بعضا قال النبي صلي الله عليه وسلم :أيهاالناس اذا كان هذا اليوم فاغتسلوا،قال ابن عباس رضي الله عنهما:ثم جاءالله بالخير ولبسوا غيرالصوف وكفوالعمل ووسع المسجد ،

وثالثها :أن المراد بالامر:الندب من اول أمره وبالوجوب الثبوت شرعا علي وجه التاكيد ،كانه قال :وغسل يوم الجمعة واجب في الاخلاق الكريمة وحسن السنة،

قال الشافعي رحمه الله:احتمل قوله (واجب) معنيين : الظاهر منهما أنه واجب فلا تجزئ الطهارة لصلوة الا بالغسل،واحتمل انه واجب في الاختياروكرم الاخلاق والنظافة ،ثم استدل للاحتمال الثاني  بقصة  عثمان مع عمر رضي الله عنهما … فلما لم يترك  عثمان رضي الله عنه  الصلوة للغسل ولم يأمره عمر رضي الله عنه بالخروج للغسل ،دل ذلك علي أنهما قد علما أنه الأمر بالغسل للاختيار”

ترجمہ:جمہور(  اہل علم )  نےمذکورہ   حدیث (یعنی جس میں ہر بالغ پرغسل واجب ہونے  کا تذکرہ  ہے اس) کے تین جوابات دئیے  ہیں ۔پہلا جواب یہ ہے  کہ :جمعہ کے دن وجوب غسل کا حکم شروع اسلام میں تھا  اور بعد  میں منسوخ ہوگیا(جس کی دلیل ابوداؤ  کی یہ روایت ہے:

عن سمرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «من توضأ يوم الجمعة فبها ونعمت، ومن اغتسل فهو أفضل»(ابوداؤد 1/63)

"ترجمہ: حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے جمعہ کے دن (صرف) وضو  کیا تو بہت اچھا اور جس نے غسل کیا تو غسل کرنا افضل ہے” )

دوسرا جواب یہ ہے  کہ چونکہ اس  حکم  کی علت( یعنی مساجد کا تنگ ہونا اور  گرمیوں  میں ایک دوسرے سے پسینے کی بدبو  کا آنا وغیرہ)  ختم ہوگئی  تو  حکم بھی ختم ہوگیا  جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی حدیث ہے  کہ ان سے  جب جمعہ کے دن کے غسل کے بارے میں پوچھا گیا  کہ کیا جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے ؟تو  انہوں نے فرمایا :نہیں، لیکن جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرے اس کےلیے اس میں زیادہ پاکیزگی ہے اور جو غسل نہ کرے اس پرغسل واجب  نہیں  ۔اور میں تمہیں جمعہ کے دن  غسل کی ابتداء کے بارے میں  بتاتا ہوں وہ یہ ہے کہ : صحابہ ر ضی اللہ عنھم  عام طور سے محنت ومشقت  کرتے تھے ،اونی کپڑے پہنتے تھے ،اور اپنی پشتوں پر بوجھ لادتے  تھے ،اور ان کی مسجد تنگ تھی ۔پس جب ان میں سے بعض کو بعض  کے(پسینے کی بدبو) کی  وجہ سے تکلیف پہنچی تو رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا:اے لوگو ! جب جمعہ کا دن ہوتو غسل کرلیا کرو۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے فرمایا  :پھر اللہ تعالی نے کشادگی  کردی اور لوگ ( اونی لباس ترک کر کے ) دوسرا لباس پہننےلگے اور خودمحنت  کرنے کی ضرورت  نہ رہی (کیونکہ  غلام اور ملازم  مل گئے) اور مسجد بھی وسیع  ہوگئی(اور پسینے  سے جو ایک دوسرے کو تکلیف ہورہی تھی وہ جاتی رہی اور غسل کے ضروری ہونے کی جو وجہ تھی وہ ختم ہوگئی)

تیسرا جواب یہ ہے کہ (جمعہ کے دن غسل کا امر )شروع  ہی سے استحباب کا تھا (اور جس حدیث میں وجوب کا ذکر ہے اس سے مراد ) تاکید کے طور پر شرعا ثبوت ہے گویا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا :اخلاق کریمہ  اور  حسن سنت کے طور پر جمعہ کے دن غسل کرنا واجب یعنی ثابت  ہے ۔

چناچہ امام شافعی ؒ نے فرمایا :واجب ہونے کے دو معانی ہیں  :ان میں سے جو ظاہری معنی ہے وہ یہ ہے   کہ نماز جمعہ کے لیے صرف طہارت (وضو) بغیر غسل کے کا فی نہ ہو اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ وجوب سے مراد وجوب اختیاری ہےاور اخلاق کریمہ اور پاکیزگی کا تقاضہ ہے ۔پھر احتمال ثانی پر حضرت  عثمان رضی اللہ عنہ  کا جو واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے ساتھ پیش آیا تھا  اس سے استدلال کیا (یعنی جس قصہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے جمعہ کی نماز کے لیے   غسل نہ کر سکے تھےاور استدلال ایسے کیا    ) کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے  غسل   نہ کرنے کی وجہ سے جمعہ کی نماز نہیں چھوڑی  اور نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو  غسل کے لیے   مسجد سے باہر نکلنے  کا حکم دیا تو یہ اس بات  کی دلیل ہے کہ ان دونوں حضرات کے علم  میں تھا کہ غسل کا حکم وجوب  کیلئے نہیں  ہے بلکہ صرف استحباب  کیلئے ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved