- فتوی نمبر: 25-235
- تاریخ: 17 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
استفتاء
- کیا لفظ ’’علیہ السلام‘‘ انبیاء کے ساتھ خاص ہے؟
- حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ لفظ ’’علیہا السلام‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- لفظ ’’علیہ السلام‘‘ انبیاء کے ساتھ خاص ہے۔
- لغوی معنی کے لحاظ سے لفظ ’’علیہ السلام‘‘ یا ’’علیہاالسلام‘‘ ہر مسلمان کے نام کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم حضرات فقہاء کرام نے غیر نبی کے نام کے ساتھ لفظ ’’علیہ السلام‘‘ لکھنے یا کہنے کو منع فرمایا ہے اور اس کی دو وجہیں ذکر فرمائی ہیں:
- سلف کے عرف میں یہ لفظ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰت و التسلیمات کے ناموں کے ساتھ خاص ہے لہٰذا اگر غیر نبی کے نام کے ساتھ اسے استعمال کریں گے تو اس کے نبی ہونے کا شبہ ہوگا۔
- غیر نبی کے ساتھ یہ لفظ استعمال کرنا اہل بدعت کا شعار ہے جیسا کہ اہل تشیع حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نام کے ساتھ یا دیگر ائمہ کے ناموں کے ساتھ یہ لفظ استعمال کرتے ہیں اور اہل بدعت سے تشبہ ممنوع ہے۔
چونکہ حضرت مریم علیہا السلام دینی لحاظ سے ایک عظیم مرتبہ رکھتی ہیں اور ان کے نام ساتھ یہ لفظ استعمال کرنے میں نہ تو نبی ہونے کا شبہ ہے اور نہ ہی ان کے نام کے ساتھ یہ لفظ استعمال کرنے کا اہل بدعت کا شعار ہے لہٰذا ان کے نام کے ساتھ اس لفظ کو استعمال کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ جیسا کہ فرشتوں کے ناموں کے ساتھ مذکورہ لفظ استعمال کرنا درست ہے کیونکہ اس استعمال میں نہ تو ان کے نبی ہونے کا شبہ ہے اور نہ اہل بدعت کا شعار ہے۔
رد المحتار(10/518) میں ہے:وأما السلام فنقل اللقاني في شرح جوهرة التوحيد عن الإمام الجويني أنه في معنى الصلاة فلا يستعمل في الغائب ولا يفرد به غير الأنبياء فلا يقال علي عليه السلام وسواء في هذا لأحياء والأموات إلا في الحاضر فيقال السلام أو سلام عليك أو عليكم وهذا مجمع عليه إ هـ أقول ومن الحاضر السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين والظاهر أن العلة في منع السلام ما قال النووي في علة منع الصلاة أن ذلك شعار أهل البدع ولأن ذلك مخصوص على لسان السلف بالأنبياء عليهم الصلاة والسلام كما أن قولنا عز وجل مخصوص بالله تعالى فلا يقال محمد عز وجل وإن كان عزيزا جليلا ثم قال اللقاني وقال القاضي عياض الذي ذهب إليه المحققون وأميل إليه ما قاله مالك وسفيان واختاره غير واحد من الفقهاء والمتكلمين أنه يجب تخصيص النبي وسائر الأنبياء بالصلاة والتسليم كما يختص الله سبحانه عند ذكره بالتقديس والتنزيه ويذكر من سواهم بالغفران والرضا كما قال الله تعالى { رضي الله عنهم ورضوا عنه } المائدة 9 { يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان } الحشر 10 وأيضا فهو أمر لم يكن معروفا في الصدر الأول وإنما حدثه الرافضة في بعض الأئمة والتشبه بأهل البدع منهي عنه فتجب مخالفتهم إ هـ أقول وكراهة التشبه بأهل البدع مقرر عندنا أيضا لكن لا مطلقا بل في المذموم وفيما قصد به التشبه بهم كما قدمه الشارح في مفسدات الصلاة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved