• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کل جائیداد کی وصیت کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں ساری پراپرٹی اپنی اولاد میں برابر تقسیم کردی تھی اور تمام ورثاء کی باہمی رضامندی سے ایک چھوٹا سا گھر اپنے اور اپنی اہلیہ کے لیے رکھ لیا تھا تاکہ اس کے کرایہ سے ان کے ذاتی اخراجات چلتے رہیں اور تمام کو بتا دیا تھا کہ میرے اور میری اہلیہ کے بعد اس گھر کو کسی مسجد یا مدرسہ میں دیدینا ۔اب میرے والد صاحب کی وفات ہو چکی ہے اور میری والدہ حیات ہیں ۔پوچھنا یہ تھا کہ کیا اس مکان میں ورثاء کا حصہ وغیرہ ہے؟ یا کہ ہم اس مکان کو اللہ کے راستہ میں دینے کے پابند ہیں ۔نیز والد صاحب کی وراثت میں صرف یہی مکان ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ ایک تو کل مکان کی وصیت ہے اور دوسرے بیوی کے لیے بھی وصیت ہے اس لیے اگر کل ورثاء اس وصیت کو اپنے والد کے کہے کے مطابق پورا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں اور اگر ورثاء والد کے کہے کے مطابق اس وصیت کو پورا کرنانہ چاہیں تو کم از کم ایک تہائی حصے میں مسجد اور مدرسے کے حق ورثاء وصیت کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں اس سے زائد میں پابند نہیں ۔

توجیہ:         مذکورہ صورت کی حقیقت یہ ہے کہ گویا آپ کے والد نے یہ وصیت کی کہ ’’میرے پہلے فوت ہونے کی صورت میں یہ مکان میری بیوی کے استعمال میں رہے اوربیوی کے فوت ہونے کے بعد یہ مکان کسی مسجدمیں دیدیا جائے‘‘وصیت ان امور میں سے ہے جو شرط ملائم کے ساتھ تعلیق اور اضافت الی المستقبل کے ساتھ صحیح ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ شرح المجلہ (226/1) میں ہے:

بيان ماتصح اضافته الي المستقبل ومالاتصح ،الاول الاجارة۔۔۔۔والمزارعة والمساقاة والکفالة۔۔۔۔فتصح اضافتها الي الزمان (و)تعليقهابالشرط الملائم وکذ االايصاء والوصية بالمال فانهما لاينفذان الا بعد الموت فيجوز تعليقهما واضافتهما ۔

البتہ یہ وصيت کل مکان کی ہے اس ليے اگر تمام ورثاء اپنی رضامندي سے اسے پورا کرنا چاہيں تو پورا کرسکتے ہيں ورنہ ايک تهائی ميں یہ وصيت نافذ ہو گی۔

في البدائع :(شامله،432/5)

ولو ان رجلاقال لورثته اجزت لکم ان تعطوا ثلث مالي فلانا کان ذلک منه وصية ۔

وفي المحيط البرهاني:(شامله،418/6)

المريض اذا قال لورثته :اعتتقوا عني فلانا بعد موتي ان شاء الله صح الايصاء حتي يجب عليهم الاعتاق۔

في الشامية(429/10)

اوصي بشئي للمسجد لم تجز الوصية لانه لا يملک وجوزها محمد قال المصنف وبقول محمد افتي مولانا صاحب البحر۔قال :اوصيت بثلثي ۔۔لفلان اوفلان بطلت عندابي حنيفةؒ لجهالة الموصي له وعند ابي يوسف :لهما ان يصطلحا علي اخذ الثلث وعند محمد يخيرالورثة فايهما شاؤو اعطوا۔

وايضافيه(382/10)

قال لمديونه :اذا مت فانت بريء من ديني الذي عليک صحت وصيته ولو قال :ان مت لايبرأ للمخاطرة۔

وايضا فيه(299/10) الوصية باکثر من الثلث اذا لم تجز تقع باطلة فيجعل کانه اوصي لکل بالثلث قوله (تقع باطلة)ليس المراد بطلانها من اصلها والا لما استحق شيئا وانما المراد بطلان الزائد ۔بيان ذلک ان الموصي قصد شيئين الاستحقاق علي الورثة فيما زاد علي الثلث وتفضل بعض اهل الوصايا علي بعض والثاني يثبت في ضمن الاول ولما بطل الاول لحق الورثة وعدم اجازتهم بطل مافي ضمنه وهو التفضيل فصار کانه اوصي لکل منهما بالثلث۔۔فقط والله تعالي اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved