- فتوی نمبر: 24-346
- تاریخ: 24 اپریل 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > روزمرہ استعمال کی اشیاء
استفتاء
ہم اگر یہ جائے نماز لے آئیں جس کا اشتہار ساتھ لف ہے، تو کوئی حرج تو نہیں۔۔؟؟
جو عورت بھی یہ جائے نماز لائی ہے اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ اسے بہت ہی سرور آتا ہے نماز اور دعا کرتے ہوئے۔ اشتہار یہ ہے:
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ جائے نماز پر حاجت کے نفل پڑھنے سے مشکل کے حل ہوجانے کو یقینی سمجھنا جہالت اور عقیدے کی خرابی ہے لہٰذا اس سے احتراز لازم ہے۔ البتہ اس جائے نماز کی قید کے بغیر اپنی مشکلات کے حل کے لئے نماز حاجت اور دعا میں لگنا عین دین ہے اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور باعث اجر و ثواب ہے خواہ مشکل دور ہو یا نہ ہو ، سرور آئے یا نہ آئے۔
التقی فی احکام الرقی (30،26،24بحوالہ اشرف العملیات (18) میں ہے:
طبیّ دواؤں کی طرح یہ بھی (ایک دوا اور علاج) ہے، مؤثر حقیقی نہیں، نہ اس پر اثر مرتب ہونے کا اللہ و رسول کی طرف سے حتمی وعدہ ہوا ہے اور نہ اللہ کے نام اور کلام کا یہ اصلی اثر ہے۔ (حاصل یہ کہ) جھاڑ پھونک (عملیات و تعویذات) دوسرے جائز کاموں کی طرح (ایک جائزکام) ہے اگر اس میں کوئی مفسدہ شامل ہوجائے یا جواز کی شرط نہ پائی جائے تو ناجائز اور معصیت ہے۔
ملفوظات حکیم الامت(4/204) میں ہے:
ایک خرابی اس میں یہ دیکھی گئی کہ اکثر لوگ تعویذ گنڈہ کرنے والے کی بزرگی کے معتقد ہوجاتے ہیں خصوصاً جس کے تعویذ گنڈوں سے نفع ہوجاتا ہے حالانکہ بزرگی سے اس کو کوئی تعلق نہیں یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی طبیب کے کسی نسخہ سے مریض کو شفاء ہوجائے اور اس کو بزرگ خیال کرنے لگیں مگر تعویذ دینے والے کے معتقد ہیں نہ معلوم اس میں اور اس میں کیا فرق کرتے ہیں۔ میرے نزدیک تو کوئی فرق نہیں دنیوی فن ہیں۔ وجہ فرق کی صرف ایک سمجھ میں آتی ہے کہ طبیب کے علاج کو امر دنیوی سمجھتے ہیں اور عامل کے علاج کو امر دینی خیال کرتے ہیں اور عوام کا یہ خیال اس وجہ سے ہے کہ عملیات کا امور عالیہ قدسیہ سے تعلق ہے نیز اس کے علاوہ بھی ان تعویذ گنڈوں کے متعلق اکثر لوگوں کے عقائد بہت ہی خراب ہیں جس کا سبب جہل اور حقیقت سے بے خبری ہے۔
ملفوظات حکیم الامت(8/335) میں ہے:
عملیات بھی دوا کی طرح ایک ظاہری تدبیر ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے اور دوا میں فتنہ نہیں۔ وہ فتنہ یہ ہے کہ عامل کی طرف بزرگی کا خیال ہوتا ہے اور طبیب (ڈاکٹر) کی طرف بزرگی کا خیال نہیں ہوتا۔ عوام عملیات کو ظاہری تدبیر سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ آسمانی ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عملیات اور تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں۔
خطبات حکیم الامت(2/135،136) میں ہے:
عملیات میں ایک بات قابل لحاظ یہ ہے کہ جو عملیات دنیا کے واسطے ہوتے ہیں وہ موجب ثواب نہیں ہوتے ہیں (یعنی ان کے کرنے میں ثواب نہیں ملتا)۔ ان میں ثواب کا اعتقاد رکھنا بدعت ہے۔
التقی فی احکام الرقی (33) بحوالہ اشرف العملیات(43) میں ہے:
عملیات و تعویذات نہ کرنے کی فضیلت: حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونگے اور یہ وہ لوگ ہونگے جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے اور بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جو جھاڑ پھونک ممنوع ہے وہ نہیں کرتے اور بعض نے کہا ہے کہ افضل یہی ہے کہ جھاڑ پھونک بالکل نہ کرے اور بدشگونی یہ کہ مثلاً چھینکنے کو یا کسی جانور کے سامنے سے نکل جانے کو منحوس سمجھ کر وسوسہ میں مبتلا ہوجائیں۔ مؤثر حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہیں، اس قدر وسوسہ نہ کرنا چاہئے۔ (فروع الایمان ص:29فصل:رضاء بالقضاء)
احادیث سے افضل اور اکمل حالت یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس کو (یعنی عملیات و تعویذات کو) نہ کیا جائے اور محض دعا پر اکتفا کیا جائے۔ اور ترک رُقیہ(یعنی جھاڑ پھونک نہ کرنے) کی فضیلت ترک دوا سے بھی زائد ہے کیونکہ عوام کے لئے تداوی (علاج معالجہ) میں مفسدہ کا احتمال بعید ہے اور جھاڑ پھونک میں نہیں۔
و أما رقية النبىﷺ لنفسه فيحتمل إظهار العبودية و الافتقار، و أما بغيره فيحتمل کونه للتشريع و بيان الجواز. و أما رقية جبرئيل للنبىﷺ فيحتمل الدعاء؟ لان القرآن کما يختلف دعاء و تلاوة للجنب بالنية، کذلک يختلف دعاء و رقية بالنية.
تسہیل تربیت السالک(2/440) میں ہے:
تعویذ گنڈا وہ برا ہے جو خلاف شرع ہو یا اس پر تکیہ و اعتماد (یعنی پورا بھروسہ) ہوجائے اور اگر من جملہ تدبیر عادی کے سجھا جائے اور شرع کے موافق ہو توکچھ حرج نہیں۔
ملفوظات حکیم الامت(4/154،155) میں ہے:
آج کل لوگوں کو عملیات کے بارے میں اس قدر غلو ہوگیا ہے کہ عزائم و عملیات کا مجموعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان چیزوں میں پڑ کر مقصود سے بہت دور جاپڑے۔ اس لیے کہ اصل مقصود اصلاح نفس ہے مگر اس کی بالکل پرواہ نہیں۔ ایک مرتبہ میں نے طالب علمی کے زمانے میں حضرت مولانا محمد یعقوب سے عرض کیاکہ حضرت کوئی ایسا بھی عمل ہے جس سے موکل تابع ہوجائیں؟ فرمایا: ہے تو، مگر یہ بتلاؤ کہ تم بندہ بننے کے لئے پیدا ہوئے یا خدائی کرنے کے لئے؟ بس مولانا کا اتنا کہنا تھا کہ مجھ کو بجائے شوق کے ان عملیات سے نفرت ہوگئی۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی کے ایک مرید کا یہ خیال تھا کہ حضرت عمل پڑھتے ہوں گے جس کی وجہ سے اس قدر معتقدین کا ہجوم ہے۔ آپ کو اس خطرہ پر اطلاع ہوگئی۔ آپ نے فرمایا: ارے معلوم بھی ہے کہ ان عملیات سے باطنی نسبت سلب ہوجاتی ہے۔ قربان جایئے حضور اکرمﷺ پر کہ ان فضولیات سے بچا کر ہم کو ضروری چیزوں کی طرف لائے۔ میں نے ان چیزوں کے عالموں کو (یعنی عاملین کو) دیکھا ہے کہ ان میں کوئی باطنی کمال نہیں ہوتا بلکہ اور ظلمت بڑھتی ہے۔ الحمد للہ مجھے مولانا کے ارشاد کے بعد عملیات سے کبھی مناسبت نہیں ہوئی۔
ملفوظات حکیم الامت(3/55) میں ہے:
خدا تعالیٰ سے مانگنے کے دو طریقے ہیں: ایک تو دنیا کے واسطے خدا تعالیٰ سے دعا کرنا اور دعا کے ذریعے سے مانگنا یہ مذموم نہیں ہے بلکہ یہ تو شانِ عبدیت ہے۔ اور ایک یہ ہے کہ وظیفہ پڑھ کر مانگنا یہ مذموم(بُرا) ہے۔ اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے وہ یہ کہ دعا کرکے مانگنے میں ایک ذلت کی شان ہوتی ہے اور یہ اس مقصود کے موافق ہے جو بندوں کے پیدا کرنے سے اصل مقصود ہے۔ یعنی یہ کہ اللہ نے انسان کو عبادت ہی کے لئے پیدا کیا ہے اسی واسطے حدیث میں آیا ہے: الدعامخ العبادۃ۔ کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔
ملفوظات حکیم الامت(3/56) میں ہے:
دعا میں ایک خاصہ ہے جس کی وجہ سے دعا کرکے دنیا مانگنا جائز ہے اور وظیفہ میں وہ بات نہیں اس لیے وہ مذموم ہے۔
خطبات حکیم الامت(3/57) میں ہے:
دعا کی حقیت وہ ہے جو عبادت کی روح ہے یعنی تذلّل اور اظہارِ احتیاج، دعا کا یہ رنگ ہوتا ہے جس سے سراسر عاجزی اور محتاجگی ٹپکتی ہے۔ اور وظیفہ میں یہ بات نہیں بلکہ اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ وظیفہ پڑھ کر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وظیفے کے زور سے ہمارا مقصود ضرور حاصل ہوگا تو ایسی حالت میں عاجزی و محتاجگی کا اظہار کہاں؟ پس دنیا کے واسطے وظیفہ پڑھنا اور دنیا کے لیے دعا کرنا برابر نہیں۔ اگر کوئی دنیا کے واسطے دعا مانگے اور یوں کہے کہ اے خدا! مجھے سو روپے دے دیجئے، تو یہ جائز ہے بلکہ اس میں بھی وہی ثواب ہے جو آخرت کے لیے دعا کرنے میں ہے، بشرطیکہ دعا ناجائز کام کے لیے نہ ہو کیوں کہ دنیا کے لیے ہر دعا جائز نہیں بلکہ جو شریعت کے موافق ہو وہی جائز ہے۔ مثلاً کوئی شخص ناجائز ملازمت کے لیے دعا مانگے تو یہ جائز نہیں (البتہ جائز دعا مانگنے میں ثواب بھی ہے) اور دنیا کے واسطے وظیفہ پڑھنے میں کوئی ثواب نہیں۔
ملفوظات حکیم الامت(1/365) میں ہے:
ایک صاحب کا خط آیا ہے انہوں نے دنیا کے کام کے واسطے وظیفہ دریافت کیا ہے۔ میں نے لکھ دیا ہے کہ دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں۔ پھر فرمایا کہ عملیات میں ایک دعویٰ کی سی شان ہوتی ہے اور دعا میں احتیاج و نیاز مندی کی شان ہوتی ہے حق تعالیٰ چاہیں گے تو کام ہوجائے گا اور عملیات میں یہ نیاز اور احتیاج نہیں ہوتا بلکہ اس پر نظر رہتی ہے کہ جو ہم پڑھ رہے ہیں اس کا خاصہ ہے کہ یہ کام ہو ہی جائے گا۔ مگر اس کے باوجود دعا کو لوگوں نے بالکل چھوڑ ہی دیا اور عملیات کے پیچھے پڑ گئے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ دعا کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ سے کیوں مستغنی (بے نیاز) ہوگئے۔ ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔ اس کی طرف لوگو ں کی نظر بہت ہی کم جاتی ہے وہ یہ کہ اور ادووظائف دنیا کے کام کے واسطے پڑھوگے تو اس پر اجر و ثواب نہ ہوگا اور دعا اگر دنیا کے واسطے بھی ہوگی وہ بھی عبادت ہوگی۔ اور اس میں اجر و ثواب ملے گا۔
التقی فی احکام الرقیٰ(30) بحوالہ اشرف العملیات(80) میں ہے:
اگر عملیات پر جازم (یعنی ایسا پختہ) اعتقاد ہو کہ اس میں ضرور فلاں تاثیر ہے اور اسی پر پوری نظر اور کامل اعتماد ہوجائے تو بھی ناجائز ہے۔ اور یہی مراد ہے اس حدیث سے: مَنْ تَعَلَّق شَيْنا و کل اِلَيهِ. اور یہ یقینی بات ہے کہ آج کل اکثر عوام عملیات کو ایسا مؤثر سمجھتے ہیں کہ حق تعالیٰ سے بھی غافل اور بے فکر ہوجاتے ہیں۔ اور اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں حتیٰ کہ عامل ان آثار کو قریب قریب اپنے اختیار و قدرت میں سمجھنے لگتا ہے، بلکہ کبھی زبان سے بھی دعویٰ کرنے لگتا ہے کہ میں یوں کر دونگا۔ اور اگر عامل کا ایسا اعتقاد نہ ہوا لیکن (عوام الناس) جاہلوں کا یہ اعتقاد تو ضرور ہوتا ہے (کہ عامل صاحب چاہیں تو سب کچھ کر سکتے ہیں) چونکہ عامل تعویذ دے کر اس فساد کا زیادہ سبب بنتا ہے۔ ایسے شخص کو (جس کا عقیدہ فاسد ہے) تعویذ دینا بھی درست نہیں معلوم ہوتا، کیونکہ معصیت(گناہ) کا سبب بننا بھی معصیت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved