• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کتے کی خرید وفروخت  کا حکم

استفتاء

ایک چھوٹا سا کتا خریدا تھا میں نے گھر کے لئے اب وہ کافی بڑا ہوگیا ہے۔کیا میں اس کو بیچ سکتا ہوں اور اس کے پیسے استعمال کرسکتا ہوں؟

وضاحت:مذکورہ کتا شوقیہ پالا ہوا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(۱)اگر یہ کتا ایسا ہےکہ جو محض شوقیہ رکھا جاسکتا ہے حفاظت یا شکار کے کام نہیں آسکتا تو اس کی خرید وفروخت جائز نہیں  ۔

(۲)اگر یہ کتا ایسا ہے کہ حفاظت یا شکار کے کام آسکتا ہے خواہ فی الحال یا کچھ عرصہ اسے تربیت دے کر تو ایسے کتے کی خرید و فروخت جائز ہے لیکن اگر معلوم ہو کہ لینے والا محض شوقیہ رکھنے کےلیے لے رہا ہے تو پھر اس کی بھی خرید وفروخت  جائز نہیں۔

فہم حدیث(2/122)میں ہے:

عن ابي جحيفة رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم نهي عن ثمن الدم وثمن الكلب. (بخاری)

ترجمہ:حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے خون (خواہ انسان کا ہو یا کسی جانور کا ہو اس)کی قیمت (لینے )سے اور (شوقیہ پالے ہوئے)کتے کی قیمت (لینے)سے (اور مراد ہے ان دونوں کی خرید وفروخت سے)منع فرمایا (کیونکہ خون تو محض نجاست ہےاور شوقیہ کتا پالنا بالکل حرام ہے)۔

عمدۃالقاری (12/59)میں ہے۔

ابراهيم النخعي وابوحنيفة وابويوسف ومحمد وابن كنانة وسحنون من المالكية ومالك في رواية فقالوا الكلاب التي ينتفع بها يجوز بيعها ويباح اثمانها وعن ابي حنيفة ان الكلب العقور لايجوز بيعه ولايباح ثمنها.

بحر الرائق(6/286)میں ہے۔

(وصح بيع الكلب والفهد والسباع الطيور)لما رواه ابو حنيفة رحمه الله انه ﷺ رخص في ثمن كلب الصيد ولانه مال متقوم آلة الاصطياد فصح بيعه كالبازي بدليل أن الشارع أباح الانتفاع به  حراسة واصطيادا فكذا بيعا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved