• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا 4Uپاکستانی کمپنی کی لائنرچپس (Liner Chips) کھانا حلال ہے؟

استفتاء

کیا 4Uپاکستانی کمپنی کی لائنرچپس (Liner Chips)  کھانا حلال ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی درج ذیل ہیں:

Potatoes, Vegetable Oil, Palm Oil, Chilli Powder, Acidity Regulator E330, Salt, Anti caking agent E551, Flavour Enhancer (E627), Flavour Enhancer (E631), BBQ Flavour, Artificial Sweether

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ 4U پاکستانی کمپنی کی لائنر  چپس (Liner Chips)کے پیکٹ پر جو اجزائے ترکیبی درج ہیں ۔ان میں سے کسی جزء کے حرام ہونے پر کوئی قابل اعتبار دلیل موجود نہیں ۔ لہذا جب تک مذکورہ لائنر چپس  (Liner Chips)میں کسی حرام جزء کے شامل ہونے کی کوئی  قابل اعتبار دلیل سامنے نہیں آتی اس وقت تک مذکورہ لائنر  چپس کھانے کی گنجائش ہے۔

توجیہ: 4U کمپنی کی لائنر  چپس (Liner Chips)کے پیکٹ پر 11 اجزائے ترکیبی مذکور ہیں جن میں سے   چھ   (6) نباتاتی، ایک (1) معدنی ، ایک (1)  حیوانی اور تین (3) مصنوعی  ہیں۔جن کی تفصیل اور حکم درج ذیل ہے:

نباتاتی اجزاء:

1۔Potatoes (آلو)

2۔Vegetable Oil(سبزیوں کا تیل)

3۔Palm Oilتاڑ( کھجور سے مشابہ ایک درخت کے پھل) اور اسکی گٹھلی سے حاصل شدہ تیل۔

4۔Chilli Powder (مرچ پاؤڈر )

5۔Acidity Regulator E330(تیزابیت کو قابو میں رکھنے والا عنصر جو کہ پھلوں سے حاصل ہوتا ہے)

6۔Flavour Enhancer (E627)ذائقہ بڑھانے والے اجزاء یعنی(Sodium Guanylate)  جو عام طور پر مچھلی یا خمیر شدہ پودوں سے حاصل ہوتے ہیںـ

نوٹ: اگرچہ E627 (Flavour Enhancer) کا ماخذ مچھلی بھی  ہے لیکن چونکہ تجارتی سطح پر  یہ خمیر شدہ پودوں سے حاصل کردہ استعمال ہوتا ہے اس لیے اسے نباتاتی اجزاء میں شامل کیا ہے۔

نباتاتی اجزاء کا حکم:

نباتاتی اجزاء کا حکم یہ ہے کہ  ان میں سے نشہ آور یا مضر اجزاء کے علاوہ سب پاک اور حلال ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق   مذکورہ اجزاءمیں سے کوئی بھی جزء نشہ آور یا مضر نہیں ہے لہٰذا یہ سب اجزاء پاک  اور حلال ہیں۔

معدنی اجزاء:

7۔Salt (نمک)

معدنی اجزاء  کاحکم:

معدنی اجزاء کا حکم بھی نباتات والا ہے کہ نشہ آور یا مضر کے علاوہ سب پاک اور  حلال ہیں۔اور ہماری معلومات  میں مذکورہ اجزاء میں کوئی جزء نشہ آور  یا مضر نہیں ہے لہٰذا یہ سب اجزاء پاک اور حلال ہیں۔

حیوانی اجزاء:

8۔ Flavour Enhancer E631(ذائقہ بڑھانے والا جزء)سوڈیم اینوسینیٹ  (Sodium inosinate)    ہے۔

مذکورہ جزء  کا حکم:

یہ جزء  نباتات اور حیوانات دونوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔

مذکورہ جزء  اس مصنوع میں چونکہ گوشت کی صورت میں نہیں ہے لہٰذا اس کے حیوانات   سے حاصل ہونے کا احتمال شبہۃ الشبہۃ کا درجہ رکھتا ہے ا س لیے شرعاً  اس کا اعتبار نہ ہوگا،اس کی تفصیل یہ ہے کہ   اس جزء کا حیوانی ہونا یقینی نہیں ہے بلکہ اس کے حیوانی ہونے کاصرف  شبہ ہے پھر حیوانی ہونے کی صورت میں اس کے حیوان غیر ماکول اللحم  یا غیر شرعی ذبیحہ  کا جزءہونا یقینی نہیں ہے بلکہ اس کا بھی شبہ ہے ،لہذا اس جزء کو حیوانی ماننے کی صورت میں اس کے حرام ہونے کاشبہۃ الشبہۃ ہے اور شریعت میں حرام کے شبہہ  کا اعتبار ہے اور اس سے بچنے کا حکم ہے حرام کے شبہۃ الشبہۃ کا اعتبار نہیں ہے اور ا س سے بچنا لازمی نہیں ہے۔لہٰذا یہ جزء بھی حلال شمار ہوگا۔

مصنوعی اجزاء:

9۔BBQ Flavour( باربی کیو ذائقہ [مصالحہ جات پر مبنی خوشبودارذائقہ])

10۔Artificial Sweether         (مصنوعی چینی)

11۔Anti Caking Agent E551(جماؤ رکھنے والا عنصریعنی سلیکان ڈائی آکسائیڈ  معدنی عنصر  جو پاؤڈر  کو گٹھلی  بننے سے روکتا ہے)

مصنوعی اجزاء کا حکم:

مصنوعی اجزاء بھی درحقیقت تین اجزاء ( نباتاتی، معدنی، اور حیوانی ) میں سے کسی ایک سے یا ایک سے زائد سے ہی تیار ہوتے ہیں ان سے ہٹ کر کسی اور چیز سے تیار نہیں ہوتے اس لیے مصنوعی اجزاء کا اصل حکم تو اسی وقت معلوم ہو سکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ ان کو کن اشیاء سے تیار کیا گیا ہے اور مذکورہ لائنر  چپس میں کون سا مصنوعی فلیور استعمال کیا گیا ہے لیکن جب تک یہ معلوم نہ ہو سکے کہ یہ مصنوعی اجزاء کسی حرام یا ناپاک چیز سے تیار کیے گئے ہیں اس وقت تک اسے اور جس مصنوع (پروڈکٹ) میں یہ اجزاء شامل ہیں اسے حرام نہیں کہا جا سکتا مذکورہ صورت میں چونکہ ان اجزاء کے کسی حرام یا نجس اشیاء سے تیار ہونے کا علم یا غالب گمان نہیں اس لیے ان مصنوعی اجزاء کی وجہ سے مذکورہ مصنوع (پروڈکٹ) کو حرام نہیں کہا جائے گا بلکہ” الاصل فی الاشیاء الاباحۃ” اصول کے پیش نظر انہیں حلال ہی کہا جائے گا  لہذا جب تک مذکورہ چپس میں کسی حرام جزء کے شامل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک اسے حلال کہا جائے گا۔

نوٹ:ہمارے اس فتوے کا تعلق صرف صارف (Consumer)کے ساتھ ہے کیونکہ ایک مفتی اور عام صارف کو کسی مصنوع(Product)کے ان اجزائے ترکیبی تک ہی رسائی ہو سکتی ہے جو پیکٹ پر درج ہوں اور وہ ان اجزاء کو ہی سامنے رکھ کر اپنے لیے یا دوسرے کیلئےحلال یا حرام کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ جبکہ   صانع(Manufacturer)کو اصل حقیقت کا علم ہوتا ہے اس لیے صانع(Manufacturer) نے اگر اپنی کسی مصنوع(Product)میں کوئی حرام جز شامل کیا ہو اور اسے کسی بھی مصلحت سے اجزائے ترکیبی میں ذکر نہ کیا ہو تو صانع (Manufacturer) کا یہ فعل بہرحال حرام ہوگا اور چونکہ ہمارے پاس ایسے وسائل نہیں کہ ہم اس کی تحقیق کر سکیں کہ کسی مصنوع میں واقعتاً کوئی حرام جز شامل تو نہیں ،اس لیے ہمارے اس فتوے کی صانع (Manufacturer)  کے لیے سرٹیفکیٹ کی حیثیت نہیں ہے۔

نیز ہمارا یہ فتوی موجودہ پیکٹ پر  درج اجزائے ترکیبی کے بارے میں ہے لہٰذا اگر کمپنی آئندہ اجزائے ترکیبی میں کوئی تبدیلی کرے تو ہمارا یہ فتوی اس کو شامل نہ ہوگا۔

احياء علوم الدين(2/ 92)میں ہے:

«أما المعادن فهي أجزاء الأرض وجميع ما يخرج منها فلا يحرم أكله إلا من حيث أنه يضر بالآكل….. وأما النبات فلا يحرم منه إلا ما يزيل العقل أو يزيل الحياة أو الصحة»

صحیح بخاری (رقم:5507) میں ہے:

عن ‌عائشة رضي الله عنها: «أن قوما قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: إن قوما ‌يأتوننا ‌باللحم لا ندري أذكر اسم الله عليه أم لا، فقال: سموا عليه أنتم وكلوه» قالت: وكانوا حديثي عهد بالكفر

فتح الباری  (9/ 635) میں ہے:

«ويستفاد منه أن كل ما يوجد في ‌أسواق ‌المسلمين محمول على الصحة وكذا ما ذبحه أعراب المسلمين لأن الغالب أنهم عرفوا التسمية»

تبیین الحقائق(6/219) میں ہے:

’’ألا ترى أن ‌أسواق ‌المسلمين لا تخلو عن المحرم من مسروق ومغصوب، ومع ذلك يباح التناول اعتمادا على الظاهر‘‘

ہندیہ(5/340) میں ہے:

‌أكل ‌الطين ‌مكروه، هكذا ذكر في فتاوى أبي الليث  رحمه الله تعالى  وذكر شمس الأئمة الحلواني في شرح صومه إذا كان يخاف على نفسه أنه لو أكله أورثه ذلك علة أو آفة لا يباح له التناول، وكذلك هذا في كل شيء سوى الطين، وإن كان يتناول منه قليلا أو كان يفعل ذلك أحيانا لا بأس به، كذا في المحيط

بہشتی زیور (ص:775) میں ہے:

’’نباتات سب پاک اور حلال ہیں الا آنکہ مضر یا مسکر ہو۔‘‘

امداد الفتاوی(4/96)میں ہے:

’’سوال (۲۳۷۴) : جب سے پتہ لگا ہے کہ بعض ولایتی رنگوں میں اسپرٹ کا شبہ ہے اسی وقت سے جب بھی کپڑا پہنتا ہوں تو طبیعت میں شک رہتا ہے کہ یہ کہیں ناپاک نہ ہو، حضرت اقدس ارشاد فرماویں کہ ولایتی رنگ دار کپڑوں مثلاً رنگین گرم کپڑے، رنگین دھاری دار سرد کپڑے، عورتوں کے لئے پختہ رنگ کی رنگین چھینٹیں وغیرہ بلا دھوئے پہننے اور پہن کر نماز پڑھنے میں حرج تو نہیں ہے؟

(۲)  حضرت والا یہ بھی ارشاد فرماویں کہ عورتوں کے لئے ولایتی رنگوں سے دوپٹہ وغیرہ رنگ کر پہننے کا کیا حکم ہے؟

الجواب: اول تو خود ان رنگوں میں جزونجس شامل ہونے میں شبہ پھر ان کپڑوں میں ان رنگوں کے شامل ہونے میں شبہ تو کپڑوں کے نجس ہونے کا شبہۃ الشبہہ ہوگیا؛ اس لئے فتوے سے گنجائش ہے باقی اگر کوئی ورع اختیار کرلے اولیٰ واحسن ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved