• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا عقیقہ میں بکری کی عمر ایک سال کاہونا ضروری ہے؟

استفتاء

عقیقہ میں جانور کی عمر سے متعلق کوئی حدیث ہے تو مہربانی کرکے بتائیں۔ کیا بکرے کی عمر ایک سال یا دوندا ہونا لازم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حدیث میں عقیقہ کے لیے "نسک” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور "نسک” قربانی کو کہتے ہیں جس سے معلوم  ہوا کہ عقیقہ کے جانور کے لیے بھی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کے لیے ہیں اسی وجہ سے امام ترمذیؒ نے اپنی کتاب سنن  ترمذی جلد 3 صفحہ 726 میں اہل علم (صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، ائمہ اربعہؒ (کا بغیر کسی اختلاف کے یہ مؤقف  نقل کیا ہے کہ عقیقہ میں  بھی وہی جانور جائز ہے جو قربانی میں جائز ہے۔

اعلاءالسنن (17/117)میں ہے:

عن أم سلمة عن النبى صلى الله عليه وسلم فى العقيقة: قال: من ولد له ولد، فأحب أن ينسك عنه فليفعل [رواه الطبراني] و فيه انهﷺ سماه نسیکا ونسکا،وهو یعم الابل والبقر والغنم اجماعاَ۔ و فيه دلیل لقول الجمهور: لا یجزئ في العقيقة الا ما یجزئ فيه الا السلیم من العیوب لانه ﷺ سماه نسکا، فلا یجزئ فيه الا ما یجزئ فی النسک، وبه ظهر بطلان قول ابن حزم:یجزئ المعیب سواء کان مما یجوز فی الاضاحی، او لا يجوز فيها و السالم افضل.

سنن ترمذی (3/726) میں ہے:

والعمل على هذا عند أهل العلم ‌يستحبون أن يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم احدى وعشرين، وقالوا: لا يجزئ في العقيقة من الشاة إلا ما يجزئ في الأضحية

المجموع شرح المہذب (8/429) میں ہے:

المجزئ في العقيقة هو المجزئ في الأضحية فلا تجزئ دون الجذعة ‌من ‌الضأن أو الثنية من المعز والإبل والبقر هذا هو الصحيح المشهور وبه قطع الجمهور.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved