- فتوی نمبر: 33-162
- تاریخ: 27 مئی 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
میرے والد صاحب کی ٹانگ پر ایک بہت بڑا پھوڑا نکلا تھا جس میں پیپ وغیرہ بھر جاتی تھی ۔یہ پھوڑا پھیلتا رہا اس کی وجہ سے والد صاحب کی ٹانگ کے چار آپریشن ہوئے اور بہت تکلیف میں رہتے تھے بالآخر وہ انتقال کر گئے۔ کیا انہوں نے شہادت کی وفات پائی ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں امید ہے کہ آپ کے والد صاحب کو ان شاء اللہ شہادت کا ثواب ملے گا ۔البتہ ایسا شہید آخرت کے اعتبار سے شہید ہوتاہے دنیاوی احکام کے اعتبار سے شہید نہیں ہوتا اس لئے اس کو عام لوگوں کی طرح غسل اور کفن بھی دیا جاتا ہے ۔
توجیہ: جن بیماریوں پر شہادت کی فضیلت وارد ہوئی ہے اُن میں فقہاء نے “جنب” اور “طاعون “كو بھی شمار کیا ہے۔ جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جسم کے مختلف حصوں میں پھوڑے نکلتے ہیں اور پھوڑوں کے ارد گرد ورم بھی ہو جاتاہے اور شدید تکلیف ہوتی ہے ۔ مذکورہ صورت شدت اور نوعیت میں مشابہت کی وجہ سے طاعون اور جنب سے ملحق ہو سکتی ہے ۔
مصنف عبد الرزاق (5/ 509) میں ہے:
«عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “ما تعدون الشهيد فيكم؟ ” قالوا: من قتل في سبيل الله، قال: “إن شهداء أمتي لقليل إذن، القتل في سبيل الله شهادة، والبطن شهادة، والغرق شهادة، والطاعون شهادة، والنفساء شهادة”»
شرح النووى على مسلم (14/ 204)میں ہے:
«وأما الطاعون فهو قروح تخرج في الجسد فتكون في المرافق أو الآباط أو الأيدي أوالأصابع وسائر البدن ويكون معه ورم وألم شديد وتخرج تلك القروح مع لهيب ويسود ماحواليه أو يخضر أو يحمر حمرة بنفسجية كدرة ويحصل معه خفقان القلب والقيء»
حاشیۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح شرح نور الإيضاح (ص628) میں ہے:
«قوله: “وهو شهيد في حكم الآخرة” عد السيوطي في التثبيت شهداء الآخرة فقال من مات بالبطن واختلف فيه هل المراد الاستسقاء أو الإسهال قولان ولا مانع من الشمول أو الغرق أو الهدم أو بالجنب وهي قروح تحدث في داخل الجنب بوجع شديد لم تنفتح في الجنب أو بالجمع قال صلى الله عليه وسلم: “أيما امرأة ماتت بجمع فهي شهيدة” والجمع بالضم بمعنى المجموع كالذخر بمعنى المذخور والمعنى أنها ماتت من شيء مجموع فيها غير منفصل عنها من حمل أو بكارة أو بالسل وهو داء يصيب الرئة ويأخذ البدن منه في النقصان والاصفرار أو في الغربة أو بالصرع أو بالحمى أو دون أهله أو ماله أو دمه أو مظلمة أو بالعشق مع العفاف والكتم وإن كان سببه حراما أو بالشرق أو بافتراس السبع أو بحبس سلطان ظلما أو بالضرب أو متواريا أو لدغته هامة أو مات على طلب العلم الشرعي أو مؤذنا محتسبا أو تاجرا صدوقا ومن سعى على امرأته وولده وما ملكته يمينه يقيم فيهم أمر الله تعالى ويطعمهم من حلال كان حقا على الله تعالى أن يجعله مع الشهداء في درجاتهم يوم القيامة والمائد في البحر أي الذي حصل له غثيان والذي يصيبه القيء له أجر شهيد أي ومات من ذلك ومن ماتت صابرة على الغيرة لها أجر شهيد ومن قال كل يوم خمسا وعشرين مرة اللهم بارك لي في الموت وفيما بعد الموت ثم مات على فراشه أعطاه الله أجر شهيد»
شامی (2/ 252) میں ہے:
(قوله وقد عدهم السيوطي إلخ) أي في التثبيت نحو الثلاثين فقال: من مات بالبطن. واختلف فيه، هل المراد به الاستسقاء أو الإسهال؟ قولان ولا مانع من الشمول أو الغرق أو الهدم أو بالجنب: وهي قروح تحدث في داخل الجنب بوجع شديد ثم تنفتح في الجنب أو بالجمع بالضم بمعنى المجموع كالذخر بمعنى المذخور وكسر الكسائي الجيم. والمعنى أنها ماتت من شيء مجموع فيها غير منفصل عنها من حمل أو بكارة»
لمعات التنقيح فی شرح مشكاة المصابيح (4/ 27) میں ہے:
«وقوله: (والمبطون) قيل: المراد به من مات من إسهال، أو استسقاء وانتفاخ بطن، أو ممن يشتكي بطنه، أو من يموت بداء بطنه مطلقًا، أقول: وإنما كان بهذه المعاني من الشهداء لشدتها وكثرة أَلَمها»
امداد الاحکام ( 1/840) میں ہے:
سوال: کسی شخص کو مرض ربو ہو جس کو ہندی میں دمہ کہتے ہیں ۔اس مرض میں اس قدر تکلیف ہوتی ہے کہ آدمی لیٹ نہیں سکتا اور کھڑا بھی نہیں ہو سکتا کہ سانس کی بیماری بھی کہتےہیں ۔اس بیماری میں سوائے بیٹھنے کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا اس مرض کی بابت یہ کسی ماہر حکیم سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ بیماری کس قدر تکلیف دہ ہے اس کی بابت یہ دریافت کرنا ہے کہ جو شخص اس مرض میں مرجائے تو آیا شہید مرتا ہے یا نہیں ؟ شہید ناقص ہے یا شہید اصلی ہے ؟ یاکہ شہید نہیں ہے ؟ کیونکہ ایک کتاب رسالہ رکن الدین مولوی رکن الدین صاحب کا ہے اس رسالہ میں بہت سی ناقص شہید کی قسمیں بیان کی ہیں ،یہ قسم نہیں ہے ۔ اس لئے دریافت کرتا ہوں کہ شاید اس مرض والا بوجہ زیادہ تکلیف ہونے کے ناقص شہید کی قسم میں نکل آوے اس کا جواب بہت ہی غور سے مطلع فرمائیں آیا کوئی مستند حدیث ہے یا کوئی ضعیف حدیث ہے یا کسی حدیث سے ثابت بھی ہوتا ہے یا کسی حدیث سے بھی ثابت نہیں ہوتا ،اس بابت کوئی کتاب دیکھ کر پوری پوری طرح سے تحقیق فرماویں ۔
جواب: علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے احادیث مختلفہ کو جمع کرکے جو شہداء آخرت کو شمار کیا ہے تو ان میں من مات بالسل او بالصرع او بالحمى اور اس کے بعد من مات بالشرق کو بھی لیا ہے ۔ کذا فی الطحطاوی علی مراقی تو مریض دمہ کی کیفیت موت شرق کے مشابہ ہے بلکہ اشد ہے ،اس لئے وہ بھی شہداء آخرت ہے ان شاء اللہ تعالی ٰ ولا يصح الجزم فى مثله الا بنص صريح ولم يوجد اور سوائے مقتول فی سبیل اللہ فی المعرکہ کے اور سب اموات امراض شدیدہ شہداء ناقص ہیں شہید کامل صرف مقتول فی معرکۃ القتال ہے کہ وہ شہید دنیا و آخرت ہے اور باقی شہداء صرف شہداء آخرت ہیں ۔احکام دنیا میں شہید نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved