- فتوی نمبر: 23-162
- تاریخ: 25 اپریل 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
میراایک سوال ہے کہ اگربیوی پر شوہر کا کھانا پکانا، کپڑے دھونا، گھر کی صفائی وغیرہ واجب نہیں ہے تو پھر مردکس وجہ سے لڑکی سے شادی کرے؟جب سارے کام خود کرنے ہیں یا باہر سے کروانے ہیں توپھرشادی کاکیامقصد ہے؟
وضاحت مطلوب ہے کہ آپ کےسوال کا پس منظر کیا ہے؟
جواب وضاحت:ایک ویڈیو میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بیوی پر شوہر کے کام کاج فرض نہیں ہیں۔بیان کرنے والے مفتی اکمل صاحب ہیں ۔ویڈیومیں بیان کی گئی تفصیل درج ذیل ہے:
’’شوہر خوش ہوگاتو عورت جنت میں جائیگی ورنہ نہیں اس بات کامفہوم خوش کرنے کامفہوم یہ ہے شوہر کی نافرمانی نہ کرے یعنی اگر وہ جسمانی تعلق کےلیے بلائے تو منع نہ کرے اورباقی…… یہ کہ کسی بھی طریقے……… سے اس کو ہرٹ(تنگ۔ناقل) نہ کرے ،بدتمیزی ،لہجہ سخت رکھنایا اونچی آواز میں بات کرنا یا شوہر کو مارنا پیٹنا، احسان کرکے جتلانا ۔باقی عورت پر گھر کا کام کرنا واجب نہیں ہے نہ شوہر کےہاتھ پاؤں دبانا نہ اس کی چائے ، نہ کھانا بنانانہ کپڑے استری کرنا نہ جھاڑوپونچھاکرنا،ہاں اگرعورت کرے تواچھی بات ہے ……… ہاں شریعت نے واجب نہیں کیا‘‘
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ ویڈیو میں مسئلہ مکمل بیان نہیں کیا گیا، مکمل مسئلہ یہ ہے کہ خاوند کے گھر کے کام کاج عورت کے ذمہ قضاء واجب نہیں ہیں، یعنی عدالت عورت کو خاوند کے گھر کے کام کاج پر مجبور نہیں کر سکتی، لیکن اگر عورت ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو کہ جہاں کام کاج خود کئے جاتے ہوں خادمائیں نہ ہوں تو ایسی عورت پر خاوند کے گھر کے کام کاج کرنا دیانتاً (یعنی بندے اور اللہ کے معاملہ کے طور پر) واجب ہوتے ہیں اور عورت کے ذمہ ہوتے ہیں۔
اور اگر عورت اتنی بیمار ہوجائے کہ کام کاج نہ کر سکے یا ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو جہاں گھر کے کام خادمائیں سرانجام دیتی ہوں تو اس صورت میں عورت کے ذمہ خاوند کے گھر کے کام کاج خود کرنا واجب نہیں ہوتا بلکہ خاوند کے ذمہ ہوتا ہے کہ عورت کو خادمہ مہیا کرے تاکہ وہ اس سے کام لے سکے۔
البحر الرائق (4/ 199) میں ہے:قال في فَتْحِ الْقَدِيرِ وَيُوَافِقُهُ ما قَيَّدَ بِهِ الْفَقِيهُ أبو اللَّيْثِ كَلَامَ الْخَصَّافِ حَيْثُ قال في أَدَبِ الْقَاضِي لو فُرِضَ ما يُحْتَاجُ إلَيْهِ من الدَّقِيقِ وَالدُّهْنِ وَاللَّحْمِ وَالْإِدَامِ فقالت لَا أَعْجِنُ وَلَا أَخْبِزُ وَلَا أُعَالِجُ شيئا من ذلك لَا تُجْبَرُ عليه وَعَلَى الزَّوْجِ أَنْ يَأْتِيَهَا بِمَنْ يَكْفِيَهَا عَمَلَ ذلك قال الْفَقِيهُ أبو اللَّيْثِ هذا إذَا كان بها عِلَّةٌ لَا تَقْدِرُ على الطَّبْخِ وَالْخَبْزِ أو كانت مِمَّنْ لَا تُبَاشِرُ ذلك فَإِنْ كانت مِمَّنْ تَخْدُمُ نَفْسَهَا وَتَقْدِرُ على ذلك لا يجب عليه أَنْ يَأْتِيَهَا بِمَنْ يَفْعَلُهُ وفي بَعْضِ الْمَوَاضِعِ تُجْبَرُ على ذلكقال السَّرَخْسِيُّ لَا تُجْبَرُ وَلَكِنْ إذَا لم تَطْبُخْ لَا يُعْطِيهَا الْإِدَامَ وهو الصَّحِيحُ
فتاوى ہنديہ (1/ 548) میں ہے:وإن قالت لا أطبخ ولا أخبز قال في الكتاب لا تجبر على الطبخ والخبز وعلى الزوج أن يأتيها بطعام مهيإ أو يأتيها بمن يكفيها عمل الطبخ والخبز قال الفقيه أبو الليث رحمه الله تعالى إن امتنعت المرأة عن الطبخ والخبز إنما يجب على الزوج أن يأتيها بطعام مهيأ إذا كانت من بنات الأشراف لا تخدم بنفسها في أهلها وإن لم تكن من بنات الأشراف لكن بها علة تمنعها من الطبخ والخبز أما إذا لم تكن كذلك فلا يجب على الزوج أن يأتيها بطعام مهيأ كذا في الظهيرية قالوا إن هذه الأعمال واجبة عليها ديانة وإن كان لا يجبرها القاضي كذا في البحر الرائق
بدائع الصنائع (4/ 24) میں ہے:وَلَوْ جاء الزَّوْجُ بِطَعَامٍ يَحْتَاجُ إلَى الطَّبْخِ وَالْخَبْزِ فَأَبَتْ الْمَرْأَةُ الطَّبْخَ وَالْخَبْزَ يَعْنِي بِأَنْ تَطْبُخَ وَتَخْبِزَ لِمَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم قَسَمَ الْأَعْمَالَ بين عَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ رضي اللَّهُ عنهما فَجَعَلَ أَعْمَالَ الْخَارِجِ على عَلِيٍّ وَأَعْمَالَ الدَّاخِلِ على فَاطِمَةَ رضي اللَّهُ عنهما وَلَكِنَّهَا لَا تُجْبَرُ على ذلك إنْ أَبَتْ وَيُؤْمَرُ الزَّوْجُ أَنْ يَأْتِيَ لها بِطَعَامٍ مُهَيَّأٍ وَلَوْ اسْتَأْجَرَهَا لِلطَّبْخِ وَالْخَبْزِ لم يَجُزْ وَلَا يَجُوزُ لها أَخْذُ الْأُجْرَةِ على ذلك لِأَنَّهَا لو أَخَذَتْ الْأُجْرَةَ لَأَخَذَتْهَا على عَمَلٍ وَاجِبٍ عليها في الْفَتْوَى فَكَانَ في مَعْنَى الرِّشْوَةِ فَلَا يَحِلُّ لها الْأَخْذُ وَذَكَرَ الْفَقِيهُ أبو اللَّيْثِ أَنَّ هذا إذَا كان بها عِلَّةٌ لَا تَقْدِرُ على الطَّبْخِ وَالْخَبْزِ أو كانت من بَنَاتِ الْأَشْرَافِ فَأَمَّا إذَا كانت تَقْدِرُ على ذلك وَهِيَ مِمَّنْ تَخْدُمُ بِنَفْسِهَا تُجْبَرُ على ذلك
فتاوى ہنديہ (4/ 434)میں ہے:وقال أبو حنيفة رحمه الله تعالى إذا استأجر الرجل امرأته لتخدمه كل شهر بأجر مسمى لا يجوز كما لو استأجرها لعمل من أعمال البيت من الخبزوالطبخ وإرضاع ولده منها ولو استأجرها لتخدمه فيما ليس من جنس خدمة البيت كرعي دوابه وما أشبه ذلك يجوز لأن ذلك غير مستحق عليها كذا في المحيط ولو كانت المرأة أمة جاز هكذا في الخلاصة وفي الصيرفية استأجر امرأته لتخبز له خبزا فللأكل لا يجوز وللبيع جاز كذا في التتارخانية
احسن الفتاوی (۹/۲۸) میں ہے:
کیا عورت پر گھر کا کام کاج جیسے شوہر اور بچوں کا کھانا پکانا واجب ہے؟ بصورتِ وجوب اگر عورت کوئی دینی یا دنیوی اعزاز و شرف رکھتی ہو تو کیا اس پر بھی واجب ہے؟
جواب:عورت خواہ کوئی بڑے سے بڑا شرف رکھتی ہو تو بھی اس پر گھر کا کام کاج دیانۃ واجب ہے، البتہ اگر کھانا پکانے سے انکار کرے تو قضاء واجب نہ ہونے کی وجہ سے اس کو مجبور نہیں کیا جا سکتا، اس صورت میں اگر عورت ایسے خاندان سے ہوکہ اس کی لڑکیاں خود کام نہ کرتی ہوں یا اسے کوئی ایسی بیماری ہو کہ کھانا نہیں پکا سکتی تو شوہر پر اسے کھانا پکوا کر دینا واجب ہے ورنہ نہیں۔قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى:استأجر امرأته لتخبز له خبزا للأكل لم يجز وللبيع جاز صيرفية۔وقال العلامة ابن عابدين رحمه الله :قوله ( لم يجز ) لأن هذا العمل من الواجب عليها ديانة لأن النبي قسم الأعمال بين فاطمة وعلي فجعل عمل الداخل على فاطمة وعمل الخارج على علي وأفاد المصنف آخر الباب أن استئجار المرأة للطبخ والخبز وسائر أعمال البيت لا تنعقد ونقله عن المضمرات ط ۔قلت كأنه واجب عليها ديانة ثم راجعت باب النفقة فرأيته علل به وزاد ولو شريفة لأنه عليه الصلاة والسلام قسم الأعمال الخ (رد المحتارص39ج5)۔قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى: ( امتنعت المرأة ) عن الطحن والخبز ( إن كانت ممن لا تخدم ) أو كان بها علة ( فعليه أن يأتيها بطعام مهيأ وإلا ) بأن كانت ممن تخدم نفسها وتقدر على ذلك ( لا ) يجب عليه ولا يجوز لها أخذ الاجرة على ذلك لوجوبه عليها ديانة ولو شريفة لأنه عليه الصلاة والسلام قسم الأعمال بين علي وفاطمة فجعل أعمال الخارج على علي رضي الله تعالى عنه والداخل على فاطمة رضي الله تعالى عنها مع أنها سيدة نساء العالمين بحر۔قوله ( لوجوبه عليها ديانة ) فتفتى به لكنها لا تجبر عليه إن أبت بدائع۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved