استفتاء
حضرت مفتی صاحب!اگر امام آیت سجدہ پڑھ کررکوع میں سجدہ کی نیت کرلیا کرے جبکہ مقتدیوں کو نہ آیت سجدہ کی خبر ہو نہ اس کی نیت کریں تو شرعا کیا حکم ہے؟بالخصوص نماز تراویح میں اگر امام رکعت کے طویل ہوجانے اورمقتدیوں پر گرانی سے بچنے کےلیے ایسا کرے تو اس کا معمول بنانا کیسا ہے ؟اورپہلے اگر معمول رہا ہو تو کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ تذکرہ الخلیل میں مقتدیوں کی رکوع میں سجدہ کی نیت کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ایسا کرنے سے امام کا سجدہ تلاوت تو ادا ہوجائے گا لیکن مقتدیوں کا ادانہ ہو گا لہذا مام کو یہ صورت اختیار کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے اوراب تک جو ایسا ہوچکا اس کی اپنے مقتدیوں کواطلاع کر دے تاکہ وہ اس پر توبہ واستغفار کرسکیں ، کیونکہ نماز کا سجدہ تلاوت رہ جائے تو اس کی تلافی کی صرف یہی صورت ہے کہ اس پر توبہ واستغفار کیاجائے۔
في الشامية:2/513
ولو نواهافي رکوعه ولم ينوها الموتم لم تجزه
قوله (ولو نواها في رکوعه) اي عقب التلاوة ح عن البحر قوله (لم تجزه) اي لم تجزنية الامام المؤتم ولا تندرج في سجوده وان نواها المؤتم فيه لانه لمانواها الامامفي رکوعه تعين لها افاده ح
وفيه:11
ولو تلاها في الصلاة سجدها فيها لاخارج لها لما مر وفي البدائع واذا لم يسجد اثم فتلزمه التوبة
© Copyright 2024, All Rights Reserved