• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا جمعہ کے بعد  کی چار رکعت سنتیں احتیاطی  ظہرکے طور پر پڑھی جاتی ہیں  ؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مند رجہ ذ یل تحریر کے   بارے میں؟

”  برصغیر میں جمعہ کی نمازکے ساتھ عجیب معاملہ ہوا۔فقہ حنفی کے مطابق جمعہ کے انعقاد کی دو شرائط ہیں: (1)حکمران مسلمان ہو اور(2) امام (مسلمان حکمران)  یا اس کا مجاز نمائندہ ہی جمعہ پڑھا سکتا ہے۔صدیوں سے مسلمان حکمران تھے اس لئے یہ فقہی مسئلہ بھی دیگر مسائل کی طرح پتھر پر لکیر اور گویا دین کا ہی حصہ ہوگیا,مگر انگریز نے جب دہلی پر کمپنی سرکار کا جھنڈا لہرایا تو مسلمانوں کو اپنی تاریخ میں پہلی بار رعایا بننا پڑگیا جس کے لئے وہ ذہنی اور نفسیاتی کے علاوہ مذہبی طور پر بھی تیار نہیں تھے۔

کلاسیکل فقہ پوری دنیا کو تین دائروں میں تقسیم کرتا تھا: دارالاسلام (آزاد مسلم ریاست), دارالکفر (جہاں حکمران غیر مسلم ہو) اور دارالحرب (وہ ملک جو مسلم ملک سے حالت جنگ میں ہو)- فقہ حنفی کے مطابق جمعہ صرف دارالاسلام میں منعقد ہوسکتا ہے۔اس وقت کے علماء کے سامنے تین آپشنز تھے:

(1) وہ مسئلہ پر علمی طور پر دوبارہ غور کرتے۔ شریعت ،اللہ کی طرف سے  دین ہے جبکہ فقہ انسانی کاوش ہے اور غلطیوں سے مبرا نہیں۔(2) جمعہ کو ساقط کرکے سارے ہندوستانی مسلمانوں کو ظہر پڑھنے کا کہتے۔

علماء نے ان دو آپشنز کے بجائے تیسرا راستہ نکالا، انہوں نے بجا طور پر محسوس کیا کہ بہت جلد انگریز جانے والے اور مسلمانوں کی حکومت واپس آنے والی نہیں۔ اب اگر فقہ حنفی کے مطابق مسلمانوں کو جمعہ ترک کرکے ظہر پڑھنے کا کہیں گے تو امتداد زمانہ سے جمعہ اور اس کی اہمیت مسلمانوں کی نفسیات سے محو ہوجائے گی جو کہ ظاہر ہے کہ ایک بڑا دینی نقصان ہوتا

جمعہ پڑھتے ہیں تو فقہی اصول کے مطابق غلط ہوگاانہوں نے یہ طے کیا کہ جمعہ اور ظہر دونوں ایک ساتھ پڑھ لیئےجائیں اور اس کے لئے جمعہ کی دو رکعت کے بعد اضافی چار رکعت پڑھ لی جائیں اور اسکا نام انہوں نے "احتیاطی” رکھا اور یہ امید باندھی کہ اللہ تعالی دونوں میں سے ایک ضرور قبول فرمائیں گے۔ اسی لحاظ سے ہندوستانی مسلمانوں نے جمعہ کی دو اور ظہر کی  بارہ رکعت یعنی کل چودہ رکعت پڑھنی شروع کردی جو آج تک پڑھی جارہی ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد ضرورت ہے کہ اس معاملہ میں نظرثانی کی جائے اور صرف جمعہ (چار سنت,  دو فرض,  دو نفل) کی طرف مراجعت کرلی جائے۔”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جمعہ کی دو رکعتوں کے بعد جو چار سنتیں پڑھی جاتی ہیں وہ احتیاطی ظہر کے طور پر نہیں پڑھی جاتیں بلکہ ان چار سنتوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  حکم فرمایا ہے اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے یہ چار سنتیں پڑھنا ثابت ہیں اور خود فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں ان کا تذکرہ موجود ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حوالوں سے معلوم ہوتا ہے لہٰذا مذکورہ تحریر میں یہ بات غلط ہے کہ جمعہ کے بعد کی چار رکعتیں احتیاطی ظہر کے طور پر شروع کی گئیں تھی  اور قیام پاکستان کے بعد ان کی ضرورت نہیں لہذا انہیں ترک کر دینا چاہیے ۔

مسلم (رقم الحديث 881)میں ہے:

 عن ابي هريرةرضي الله عنه قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا صلى احدكم الجمعة فليصل بعدها اربعا.

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ایک جمعہ کی نماز پڑھے تو اس کے بعد چار رکعات نماز(سنت) پڑھے۔

ابن ماجہ(رقم الحدیث1129)میں ہے:

 عن ابن عباس ، قال : كان النبي صلى الله عليه وسلم يركع قبل الجمعة أربعا لا يفصل في شيء منهن.

 ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے چار رکعات(سنت ایسے)پڑھتے تھے(کہ)ان میں کوئی فصل نہیں فرماتے تھے(یعنی چار رکعات ایک سلام کےساتھ پڑھتےتھے)۔

موطاامام محمد (2/71)میں ہے:

عن ابن مسعود رضي الله عنه :كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل الجمعة اربعا وبعدها اربعا .

ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے چار رکعات پڑھتے تھے اور جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھتے تھے۔

شرح معانی الآثار(1/209) میں ہے:

عن علي رضي الله عنه انه قال:من كان مصليا بعدالجمعة فليصل ستا۔

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو بندہ جمعہ کے بعد نماز پڑھےتو چھ رکعات پڑھے۔

ترمذی(1/230)میں ہے:

وابن عمر هو الذي روى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يصلي بعد الجمعة ركعتين في بيته، وابن عمر بعد النبي صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد بعد الجمعة ركعتين، وصلى بعد الركعتين أربعا.

ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی وہ (راوی) ہےجنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعات اپنے گھر میں پڑھتے تھے ۔اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے(دنیا سے رخصت ہونے کے) بعد جمعہ کے بعد دو رکعت نماز مسجد میں پڑھتے تھے اور دو رکعت کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے۔

شرح معانی الآثار (1/210)میں ہے:

عن خرشة بن الحر ان عمر رضی الله عنه كان يكره ان يصلي بعد صلاة الجمعة مثلها.قال ابو جعفر فلذلك استحب ابو يوسف ان يقدم الاربع قبل الركعتين لانهن لسن مثل الركعتين فكره ان يقدم الركعتان لانهما مثل الجمعة.

ترجمہ: حضرت خرشہ بن حرؒسے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ناپسند فرماتے تھے کہ جمعہ کی نمازکے بعد جمعہ کی طرح نماز پڑھی جائے،امام ابوجعفؒرفرماتے ہیں کہ اسی وجہ سےامام ابویوسف رحمہ اللہ نےمستحب قرار دیاہےکہ(جمعہ کےبعد) چار رکعات کودو رکعتوں پر مقدم کیا جائے کیونکہ چار رکعات دورکعتوں کی طرح نہیں ہیں ،پس دورکعتوں کو(چاررکعات)سےپہلے پڑھنا ناپسندیدہ ہے کیونکہ وہ جمعہ کی طرح ہیں۔

الجوهرة النيرة (1/ 365)میں ہے:

ويتطوع بعد الجمعة بأربع ركعات لا يسلم إلا في آخرهن وعن أبي يوسف بعدها بست يصلي أربعا ثم ركعتين وقيل ركعتين ثم أربعا۔

ترجمہ:اور جمعہ کے بعد چار رکعات سنت(ایسی) پڑھی جائیں کہ ان کے اخیر میں سلام پھیراجائے (یعنی چار رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں) اور امام ابو یوسف رحمہ اللّٰہ سے مروی ہےکہ جمعہ کے بعد چھ رکعات ہیں، پہلے چار رکعات پھر دو رکعات پڑھی جائیں اور(یہ بھی) کہا گیا ہےکہ پہلے دو پھر چار (پڑھی جائیں)۔

بدائع الصنائع(1/285)میں ہے:

وأما السنة قبل الجمعة وبعدها فقد ذكر في الأصل: وأربع قبل الجمعة،وأربع بعدها،وكذا ذكر الكرخي،وذكر الطحاوي عن أبي يوسف أنه قال يصلي بعدها ستا:وقيل هو مذهب علي رضي الله عنه وما ذكرنا أنه كان يصلي أربعا مذهب ابن مسعود ،وذكر محمد في كتاب الصوم أن المعتكف يمكث في المسجد الجامع مقدار ما يصلي أربع ركعات،أو ست ركعات أما الأربع قبل الجمعة؛فلما روي عن ابن عمر رضي الله عنهماأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتطوع قبل الجمعة بأربع ركعات،ولأن الجمعة نظير الظهر ثم التطوع قبل الظهر أربع ركعات كذا قبلها ۔وأما بعد الجمعة فوجه قول أبي يوسف أن فيما قلنا جمعا بين قول النبي صلى الله عليه وسلم وبين فعله فإنه روي أنه أمر بالأربع بعد الجمعة ،وروي أنه صلى ركعتين بعد الجمعة فجمعنا بين قوله وفعله ،قال أبو يوسف:ينبغي أن يصلي أربعا ثم ركعتين كذا روي عن علي رضي الله عنه كيلا يصير متطوعا بعد صلاة الفرض بمثلها،وجه ظاهر الرواية ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال من كان مصليا بعد الجمعة فليصل أربعا وما روي من فعله صلى الله عليه وسلم فليس فيه ما يدل على المواظبة،ونحن لا نمنع من يصلي بعدها كم شاء غير أنا نقول السنة بعدها أربع ركعات لا غير لما روينا۔

المبسوط للسرخسی (1/ 287)میں ہے:

واختلفوا بعدها، قال ابن مسعود رضي الله عنه أربعا وبه أخذ أبو حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى لحديث أبي هريرة رضي الله تعالى عنه إن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من كان مصليا بعد الجمعة فليصل أربع ركعات. وقال علي رضي الله عنه يصلى بعدها ستا أربعا ثم ركعتين وبه أخذ أبو يوسف رحمه الله. وقال عمر: ركعتين ثم أربعا فمن الناس من رجح قول عمر بالقياس على التطوع بعد الظهر وأبو يوسف رحمه الله أخذ بقول علي رضي الله عنه فقال يبدأ بالأربع لكيلا يكون متطوعا بعد الفرض مثلها، وهذا ليس بقوى فإن الجمعة بمنزلة أربع ركعات لأن الخطبة شطر الصلاة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved