• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا نماز جمعہ حکمران اور اس کے نمائندے کے ذمہ ہے؟

استفتاء

نماز جمعہ   کیا  عالم  پڑھا سکتا ہے  یا یہ سٹیٹ  کی ذمہ داری ہے   وہ نامزد کرے کسی حکمران کو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  مکہ میں کبھی نماز جمعہ  نہ پڑھائی  جب تک  مکہ فتح نہ ہوا ؟

کہا جاتا ہے اسی وجہ سے امام ابوحنیفہؒ،  امام مالکؒ،   امام غزالیؒ  تک نے کبھی جمعہ نہیں پڑھایا؟ کیا نماز جمعہ  صرف حکمران اور اسکے نمائندے  کے ذمہ نہیں ؟ کیا اسکا منبر  حکمران کے لیے نہیں تھا مگر اب علماء اس منبر پر  تشریف لے  آئے۔عام  مسلمان کے لیے نماز جمعہ کے لیے  کیا تاکید ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگرچہ جمعہ کے لیے امام مقرر کرنا سٹیٹ کی ذمہ داری ہے لیکن اگر سٹیٹ اس میں دلچسپی نہ لے تو اہل محلہ جمعہ کے لیے کسی کو امام مقرر کرسکتے ہیں۔

ہدایہ (1/373) میں ہے:

ولا يجوز إقامتها إلا للسلطان أو لمن أمره السلطان ” ‌لأنها ‌تقام ‌بجمع عظيم وقد تقع المنازعة في التقدم والتقديم وقد تقع في غيره فلا بد منه تتميما لأمره

بدائع الصنائع (1/261) میں ہے:

فأما إذا لم يكن إماما بسبب الفتنة أو بسبب الموت ولم يحضر وال آخر بعد حتى حضرت الجمعة ذكر الكرخي أنه لا بأس ‌أن ‌يجمع ‌الناس ‌على ‌رجل حتى يصلي بهم الجمعة، وهكذا روي عن محمد ذكره في العيون؛ لما روي عن عثمان – رضي الله عنه – أنه لما حوصر قدم الناس عليا  رضي الله عنه  فصلى بهم الجمعة.

البحر الرائق (2/157) میں ہے:

‌أن ‌الإمام ‌إذا ‌منع أهل المصر أن يجمعوا لم يجمعوا كما أن له يمصر موضعا كان له أن ينهاهم قال الفقيه أبو جعفر هذا إذا نهاهم مجتهدا بسبب من الأسباب وأراد أن يخرج ذلك المصر من أن يكون مصرا أما إذا نهاهم متعنتا أو إضرارا بهم فلهم أن يجمعوا على رجل يصلي بهم الجمعة

اعلاء السنن (8/33) میں ہے:

“تتمة أولی: احتج بعض أکابرنا للمسألة بأن فرض الجمعة کان بمکة، ولکن النبي صلی الله علیه وسلم لم یتمکن من إقامته هناک؛ وأقامها بالمدینة حین هاجر إلیها، ولم یقمها بقباء مع إقامته بها أربعة عشر یوماً، وهذا دلیل لما ذهبنا إلیه من عدم صحة الجمعة بالقری. أما أن فرض الجمعة کان بمکة، فبدلیل ما أخرجه الدارقطني من طریق المغیرة بن عبد الرحمٰن عن مالک عن الزهري عن عبیدالله عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: أذن النبي صلی الله علیه وسلم الجمعة قبل أن یهاجر ولم یستطع أن یجمع بمکة، فکتب إلی مصعب بن عمیر: أما بعد! فانظر الیوم الذي تجهر فیه الیهود بالزبور، فأجمعوا نساء کم وأبناء کم فإذا مال النهار عن شطره عن الزوال من یوم الجمعة فتقربوا إلی الله برکعتین قال: فهو أول من جمع حتی قدم النبي صلی الله علیه وسلم  المدینة فجمع عند الزوال من الظهر وأظهر ذلک، ذکره الحافظ في ’’التلخیص الحبیر‘‘ ۱:۱۳۳، وسکت عنه”.

امداد الفتاویٰ (3/60،61) میں ہے:

سوال:  نمازجمعہ کے انعقاد کے شرائط سے جو سلطان اور امام کا ہونا نزدیک احناف کے معتبر ہے اب زمانہ موجودہ میں یہ شرط نہیں پائی جاتی تو اس صورت میں جمعہ ہوسکتا ہے؟ اگرہے تو وہ کیا اسباب ہیں کن احناف علماء نے اس شرط کو شرط نہ سمجھا؟ بحوالہ کتب واقوال تحریر فرمائیے۔ اگرچہ فی زمانناسب جگہ جمعہ ہورہاہے؟

الجواب :  في الهداية:  ولایجوز إقامتها إلا للسلطان أولمن أمره السلطان؛ لأنها تقام بجمع عظیم وقد تقع المنازعة في التقدیم والتقدم. وفي الدرالمختار: ونصب العامة الخطیب غیر معتبر مع وجود من ذکر اما مع عدمهم فیجوز للضرورة.

 روایت اولیٰ سے معلوم ہواکہ شرط وجود سلطان مقصود لذاتہ نہیں ہے بلکہ بحکمت سدفتنہ کے ہے پس اگرتراضی مسلمین سے یہ حکمت حاصل ہوجاوے تو معنیً یہ شرط مفقود نہ ہوگی چنانچہ روایت ثانیہ میں اس کی تصریح موجود ہے البتہ جہاں اور کوئی شرط صحت جمعہ کی مفقود ہو وہاں جائز نہ  ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved