• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا پانی میں بال گرجانے سے پانی مکروہ ہوجاتا ہے؟

استفتاء

اگر پانی میں بال گرجائے تو وہ پانی پینا مکروہ ہے یا نہیں؟ اگر مکروہ نہ ہو تو کیا اس پانی کو پھینک سکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں پانی پینا درست ہے اگر اس کے باوجود پانی پینے پر کسی کی طبیعت آمادہ نہ ہو تو وہ اسے پھینکے نہیں بلکہ کسی اور کام میں لے آئے۔

توجیہ: انسانی جسم کے وہ اجزاء جن میں بہنے والا خون نہیں ہوتا جیسے بال، ہڈی، ناخن وغیرہ پاک ہیں، ان کے پانی میں گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ البتہ اکھڑے ہوئے بالوں کے سروں پر جو دسومت(چکنائی) ہوتی ہے وہ اگرچہ ناپاک ہوتی ہے مگر چونکہ اس سے احتراز متعذر ہے، نیز اس کی مقدار بھی انتہائی کم ہوتی ہے کیونکہ عموماً ایک آدھ بال ہی گرتا ہے اس لیے مجبوری کی وجہ سے شرعاً چکنائی کی اتنی مقدار معاف ہے اور اس کے پانی میں گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔

بدائع الصنائع (1/63) میں ہے:

(‌وأما) ‌الذي ‌له ‌دم سائل فلا خلاف في الأجزاء التي فيها دم من اللحم والشحم والجلد ونحوها أنها نجسة؛ لاحتباس الدم النجس فيها، وهو الدم المسفوح.

(وأما) الأجزاء التي لا دم فيها فإن كانت صلبة كالقرن والعظم والسن والحافر، والخف والظلف والشعر والصوف، والعصب والإنفحة الصلبة، فليست بنجسة عند أصحابنا

ردالمحتار(1/400) میں ہے:

(وشعرالانسان ) و عن محمد في نجاسة شعر الآدمي و ظفره و عظمه روايتان، و الصحيح الطهارة ،سراج، . قوله : (غير المنتوف ) اما المنتوف فنجس ،، بحر ،، والمراد رؤوسه التي فيها الدسومة.

اقول : وعليه فما يبقى بين اسنان المشط ينجس الماء القليل اذا بل فيه وقت التسريح ، لكن يؤخذ من المسألة الآتية كما قال ط ان ما خرج من الجلد مع الشعر إن لم يبلغ مقدار الظفر لا يفسد الماء.

الدرالمختار  مع ردالمحتار (1/401) میں ہے:

ويفسد الماء بوقوع قدر الظفر من جلده لا بالظفر

قوله: (ويفسد الماء ) اي: القليل. قوله : (من جلده )اي: او لحمه ،،مختارات النوازل، زاد في البحر عن  الخلاصة ،، و غيرها : او قشره و إن كان قليلا مثل ما يتناثر من شقوق الرجل و نحوه لا يفسد الماء. قوله (لا بالظفر) اي لانه عصب ،،بحر،، و ظاهره انه لو كان فيه دسومة فحكمها كالجلد واللحم.

حلبۃ المجلی وبغیۃ المہتدی فی شرح منیۃ المصلی وغنیۃ المبتدی(لابن امیر الحاج)(1/430) میں ہے:

[م] وجلد الآدمى إذا وقع مقدار ظفر في الماء يفسد الماء.

[ش] و إن كان دونه لا يفسده صرح به غير واحد من أعيان المشائخ فمنهم من عبر بأنه إن كان كثيرا أفسده وإن كان قليلا لا يفسده، وأفاد أن الكثير ما كان مقدار الظفر و أن القليل ما دونه. ثم في محيط الشيخ رضي الدين تعليلاً لفساد الماء بالكثير لأن هذا من جملة لحم الآدمى وقد بان من الحى فيكون نجسا إلا أن في القليل تعذر الإحتراز عنه فلم يفسد الماء لأجل الضرورة.

سنن ابی داؤد (رقم الحدیث:3845 ) میں ہے:

وقال: “‌إذا ‌سقطت ‌لقمة أحدكم، فليمط عنها الأذى وليأكلها ولا يدعها للشيطان”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved