• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا تفویض طلاق کے بعد شوہر کا حق طلاق باقی رہتا ہے؟

استفتاء

درج ذیل فتوے کے حوالے سے راہنمائی مطلوب ہے:

’’کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک صاحب بہت جذباتی ہے، خطرہ ہے کہ معمولی لڑائی جھگڑے میں بھی وہ اپنی  بیوی کو ایک طلاق یا تین طلاقیں دیدے گا اور بعد میں پشیمان ہو گا، لہذا باہمی مشورہ سے طے پایا ہے کہ وہ اپنا حق طلاق اپنے والد وغیرہ کے سپرد کر دے تاکہ اگر وہ طلاق دے بھی تو واقع نہ ہو، شرع کے حوالے سے اس کی وضاحت فرمائیں کہ اگر شوہر اپنا حق طلاق کسی کے سپرد کر دے اور اس کے بعد وہ خود بیوی کو طلاق دے تو طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟

سائل: علامہ اکرم، مینیجر میڈیائی سلسلہ نشاط آباد

جواب از سنی دارالافتاء جامعہ حنفیہ امداد ٹاؤن شیخوپورہ روڈ فیصل آباد۔

الجواب بعون الوھاب

اپنا طلاق کا اختیار کسی دوسرے کے سپرد کرنا شرعا جائز ہے حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالی نے اس کی تین صورتیں لکھی ہیں نمبر 1: تفویض یعنی اپنے حق طلاق کا دوسرے کو مالک بنانا۔ نمبر 2: کسی دوسرے کو طلاق دینے کا وکیل بنانا۔ نمبر 3: ترسیل یعنی بذریعہ خط یا آدمی پیغام بھیج کر اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دینا۔

وفي الدر المختار (باب تفويض الطلاق): انواعه ثلاثة تفويض وتوكيل ورسالته الخ

 قال الشامي تحت قوله المراد بالتفويض تمليك الطلاق.

مذکورہ تینوں صورتوں میں سے تفویض (تملیک) کی صورت جانبین کے حق میں بہتر ہے لہذا شوہر اپنے کسی عزیز یا اپنی عورت یا اس کے کسی عزیز کو اپنا حق طلاق منتقل کرتے ہوئے یوں کہے ’’میری منکوحہ فلاں بنت فلاں کو ایک یا دو طلاق دینے کا مالک بناتا ہوں آپ جب چاہیں جیسے چاہیں اسے طلاق دے سکتے ہیں‘‘ اب شوہر حق طلاق سونپنے کے بعد اپنا اختیار واپس بھی نہیں لے سکتا اور نہ اس کی طلاق کی ملکیت ختم کر سکتا ہے اور شوہر کے پاگل ہونے کے ساتھ بھی ملکیت باطل نہ ہوگی۔

چنانچہ صاحب درمختار توکیل اور تفویض میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

والفرق بينهما فى خمسة احكام ففى التمليك لا يرجع ولا يعزل ولا يبطل بجنون الزوج بخلاف التوكيل. (ج 4، ص 555)

وفى البزازية: لو قال لاجنبى طلاقها بيدك او طلقها إن شئت كقوله امرها بيدك يقتصر ولا يملك الرجوع. ( ج 4، ص 235، بزازيه علی هامش الهنديه)

وفي البحر: اذا زاد متى شئت كان لها التطليق في المجلس وبعده لان كلمه متى عامة فى الاوقات. ( ج 3، ص 328)

 وفى الدر: لا تطلق بعده اى المجلس الا اذا زاد على قوله اذا شئت أو متى شئت او متى ما شئت او اذا شئت او اذا ما شئت فلا يتقيد بالمجلس ولم يصح رجوعه.( ج 4، ص 554)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ  اعلم و علمہ اتم و احکم

کتبہ: العبدمحمد اعظم ہاشمی ‘‘

وضاحت مطلوب ہے کہ :

آپ یہ سوال معلومات کے لیے پوچھنا چاہتے ہیں یا کوئی واقعہ پیش آیا ہے؟

جواب وضاحت:

واقعہ پیش آیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے:

ایک شخص نے اپنے والد سے کہا کہ میں آپ کو اپنی بیوی کی طلاق کا مالک بناتا ہوں آپ جب چاہیں جس طرح چاہیں میری منکوحہ کو ایک دو یا تینوں طلاقیں اکھٹی دے سکتے ہیں۔  شوہر کےوالد نے ایک موقعہ پر اپنی بہو کو دو طلاقیں دیں  اور کہا کہ ’’مجھے تمہیں طلاقیں دینے کا اختیار ہے لہذا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ شوہر کو جب معلوم ہوا کہ میری بیوی نے میرے والد سے جھگڑا کیا ہے اور میرے والد نے اپنا اختیار جو کہ میں نے انکو دیا تھا استعمال کرتے ہوئے اسکو دو طلاقیں دی ہیں تو شوہر نے بھی اس واقعہ کے دو دن بعد ایک اور طلاق دے دی، جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘

ہم نے مسئلہ معلوم کیا تو ایک مفتی صاحب نے کہا کہ تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں اور یہ عورت شوہر پر حرام ہو گئی ہے جب تک یہ حلالہ شرعی نہ کر لے شوہر دوبارہ اس سے نکاح نہیں کر سکتا۔

دوسرے مفتی صاحب نے کہا کہ دو طلاقیں ہوئی ہیں کیونکہ شوہر نے جب اختیار والد کو دے دیا تو اب شوہرکا اختیار ختم ہو گیا شوہر کے طلاق دینے سے کچھ نہیں ہو گا، اب جب بھی طلاق دے گا والد ہی دے گا۔

اب ان میں سے درست بات کونسی ہے آیا بیوی کو دو طلاقیں ہوئی ہیں یا تین؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ فتوی میں مجیب نے تفویض اور توکیل کے درمیان فرق بیان کیا ہے لیکن اس بات کا جواب نہیں دیا کہ طلاق کا حق تفویض کرنے سے شوہر کا ختم ہو جاتا ہے یا نہیں؟ اور اس کی دی گئی طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ لہذا مذکورہ فتوی اپنی جگہ درست ہے لیکن اس میں سائل کے سوال کا  پورا جواب  نہیں ہے۔

سائل کے سوال کا پورا جواب یہ ہے کہ طلاق کا حق اپنی بیوی یا کسی اجنبی کے سپرد کرنے سے شوہر کا طلاق دینے کا حق ختم نہیں ہوتا  لہٰذا خود شوہر کے طلاق دینے سے  بھی طلاق واقع ہو جائے گی، خواہ تملیک (تفویض) کے ذریعے طلاق کا حق سپرد کیا ہو یا توکیل کے ذریعے، لہذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، اس لیے اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: شوہر کے والد نے جب دو مرتبہ یہ الفاظ کہے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو ان الفاظ سے دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئیں  ، اس کے بعد عدت کے اندر جب شوہر نے یہ کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں تو ان الفاظ سے تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ (9/6946)میں ہے:

حق الزوج في الطلاق مع التفويض:

التفويض بالرغم من أنه تمليك عند الحنفية، فهو يشبه التوكيل، فيبقى للزوج حق إيقاع الطلاق، بعد أن يفوض الطلاق إلى زوجته، كما يحق للموكل التصرف في الأمر الموكل فيه بعد التوكيل.

فتاویٰ محمودیہ (13/137) میں ہے:

سوال:شمس الدین کو اپنے خسر سے اس بات کا خوف تھا کہ وہ مجھ سے جبرا اپنی لڑکی کی طلاق لے لے گا، تو شمس الدین نے دو آدمیوں سے کہا کہ ’’میں اپنی بیوی کی طلاق کا  معاملہ تم کو سپرد کرتا ہوں‘‘ کچھ دنوں کے بعد شمس الدین نے خسر کے ڈر سے کہا کہ’’میں نے  بیوی کو ایک طلاق، دو طلاق، تین طلاق دے دیا، اب کوئی حق میرے پاس نہیں رہا‘‘ تو کیا شمس الدین کے اختیار سپرد کرنے کے بعد یہ دی ہوئی طلاقیں واقع ہوں گی؟ مدلل تحریر فرمائیں ، عین کرم ہو گا، کیونکہ ہمارے یہاں اس مسئلہ میں عدم وقوع طلاق کا فتوی دے دیا گیا ہے اور اب بدستور میاں بیوی زندگی گزار رہے ہیں۔

الجواب:کسی دوسرے کو اپنی بیوی کی طلاق سونپ دینا اگر مشیت کے ساتھ مقید ہو تو یہ تملیک ایقاع ہے جس سے زوج نفس طلاق کی ملک سے خارج و محروم نہیں ہوجاتا اور یہ تفویض مجلس کے ساتھ مقید رہتی ہے، بعد مجلس مفوض الیہ کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ اگر زوج نے مشیت کے ساتھ مقید نہ کیا ہو تو یہ توکیل ہے اور موکل کو عزل وکیل  کا حق باقی رہتا ہے نیز توکیل سے موکل کا اختیار ختم نہیں ہوتا۔ الغرض صورت مسئولہ میں طلاق مغلظہ واقع ہو گئی، اب بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح کی بھی گنجائش نہیں رہی، فورا دونوں کو علیحدہ کر دیا جائے اورعورت کو پردہ کرایا جائے۔۔۔۔۔الخ

درمختار (4/528) میں ہے:

الصريح يلحق الصريح.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved