• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا تعویذ پہننا جائز ہے؟

استفتاء

(حضرت) عقبہ بن عامر الجہنی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک گروہ آپﷺ کے پاس آیا ، آپﷺ نے ان میں نو بندوں کی بیعت قبول کرلی لیکن ان میں سے ایک کی نہیں، انہوں نے کہا یارسول اللہ (ﷺ) آپ نے نو بندوں کی بیعت قبول کی لیکن اس کی نہیں کی؟ آپﷺ نے فرمایا اس نے تعویذ پہن رکھا ہے، اس شخص نے اپنا ہاتھ (اپنی قمیض میں) ڈال کر اتار لیا، پھر آپﷺ نے اس کی بیعت کو قبول کرلیا، آپﷺ نے کہا،جس نے تعویذ پہن لیا اس نے شرک کیا (مسنداحمد:16969)
اس حدیث سے مماتی لوگ یہ استدلال کر رہے ہیں کہ تعویذ پہننا جائز نہیں حرام ہے،کیا یہ درست ہے؟ اگر نہیں تو اس کا جواب؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس حدیث شریف سے ہر قسم کےتعویذ نہ پہننے پر استدلال درست نہیں، کیونکہ جس حدیث کا ترجمہ آپ نے بھیجا ہے اس میں مطلوبہ جملہ "جس نے تعویذ پہن لیا اس نے شرک کیا” کی عربی عبارت یہ ہے، "من علق تميمة فقد اشرك” اور سوال میں جس لفظ کو تعویذ نہ پہننے پر دلیل بنایا گیا وہ "تميمة” ہے، جس كا معنی محدثین نے "خرز” بیان فرمایا ہے، اور "خرز” لغت میں سوراخ دار دانے، منکے، کو کہتے ہیں، اور اہل جاہلیت اس پروئے ہوئے دانے کو موثر (ذاتی طور پرنفع بخش، اور حفاظت کرنے والا)سمجھتے تھے، نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کے باطل عقیدے کا رد فرمایا ، رہے وہ تعویذ جن میں اللہ تعالی کے اسماء مبارکہ اور قرآن پاک لکھا ہو تو وہ اس ممانعت میں شامل نہیں، کیونکہ ایسے تعویذ کا استعمال حدیث مبارکہ سے ثابت ہے، سنن ابی داود میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رضی اللہ عنہما) اپنے بالکل چھوٹی عمر کے (ناسمجھ) بچوں کے گلے میں یہ کلمات ’’أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباد،ه ومن همزات الشياطين وأن يحضرون‘‘ لکھ کر لٹکاتے تھے ، اگر ہر تعویذ حرام یا شرک ہوتا تو یہ صحابی حرام اور شرک والا عمل کیوں کرتے؟ ۔
مسنداحمد (ج:۱، ص:۱۵۶، ح:۱۷۴۵۸) میں ہے:
"عن عقبة بن عامر الجهني : ان رسول الله صلى الله عليه و سلم أقبل إليه رهط ، فبايع تسعة وامسك عن واحد ، فقالوا يا رسول الله بايعت تسعة وتركت هذا ؟قال ان عليه تميمة فادخل يده فقطعها فبايعه وقال من علق تميمة فقد اشرك”سنن ابی داود (كتاب الطب، باب الرقی، ح،3893،) میں ہے:
"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم من الفزع كلمات ، أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون ، وكان عبدالله بن عمرو يعلمهن من عقل من بنيه ومن لم يعقل كتبه فاعلق عليه”
غریب الحدیث (لابن قتیبۃ الدینوری، ج:1، ص:183) میں ہے:
"التميمة خرزة ، كانت الجاهلية تعلقها في العنق ، وفي العضد ، تتوقى بها ، وتظن أنّها تدفع عن المرء العاهات ، وكان بعضهم يظن أنها تدفع المنية حينا……. ’’روى عقبة بن عامر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من تعلق تميمة فقد أشرك‘‘ وبعض الناس يتوهم أن المعاذات هي التمائم ويقول في قول عبد الله إن التمائم والرقى والتولة من الشّرك ، والرقى المكروهة ما كان بغير لسان العربية ، وليس كذلك إنما التميمة الخرز ، ولا بأس بالمعاذات إذاكتب فيها القرآن وأسماء الله عز وجل”معالم السنن للخطابی (کتاب الطب، باب شرب التریاق، ج:4 ، ص: 220،) میں ہے:
"والتميمة ، يقال إنها خرزة كانوا يتعلقونها يرون أنها تدفع عنهم الآفات ، واعتقاد هذا الرأي جهل وضلال ، إذ لا مانع ولا دافع غير الله سبحانه ، ولا يدخل في هذا ، التعوذ بالقرآن والتبرك والاستشفاء به ، لأنه كلام الله سبحانه ، والاستعاذة به ترجع إلى الاستعاذة بالله سبحانه "المیسر فی شرح مصابیح السنۃ للتوربشتی (ج:3، ص:1008، کتاب الطب، ح:3412،) میں ہے:
"وفي الحديث: (التمائم والرقى من الشرك) فعلمنا أن المراد به منها ما كان من تمائم الجاهلية ورقاها، على ما بين في غير موضع، فأما القسم الذي يختص بأسماء الله وكلماته، فإنه غير داخل في جملته، بل هو مستحب مرجو البركة، عرف ذلك من أصل السنة، لا ينكر فضله وفائدته”فتح الباری لابن حجر (باب الرقی بالقرآن والمعوذات، ج:11، ص:352،) میں ہے:
"والتمائم جمع تميمة وهي خرز أو قلادة تعلق في الرأس كانوا في الجاهلية يعتقدون أن ذلك يدفع الآفات …..وإنما كان ذلك من الشرك لأنهم أرادوا دفع المضار وجلب المنافع من عند غير الله، ولا يدخل في ذلك ما كان بأسماء الله وكلامه فقد ثبت في الأحاديث استعمال ذلك”شرح المقاصد (ج:3، ص:334) میں ہے:
"ثم للقائلين بالسحر والعين اختلاف في جواز الاستعانة بالرقي والعوذ، وفي جواز تعليق التمائم ، وفي جواز النفث والمسح ، ولكل من الطرفين اخبار وآثار ، والجواز هو الارجح "مرقاۃ المفاتیح (کتاب الطب والرقی، ج:13، ص:296) میں ہے:
"والمراد من التميمة ما كان من تمائم الجاهلية ورقاها فإن القسم الذي يختص بأسماءالله تعالى وكلماته غير داخل في جملته بل هو مستحب مرجو البركة عرف ذلك من أصل السنة”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved