- فتوی نمبر: 33-189
- تاریخ: 29 مئی 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > لباس و وضع قطع
استفتاء
1۔کیا ٹوپی پہننا سنت ہے ؟
2۔ایک غیر مقلد نے کہا کہ یہ باقاعدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت نہیں ہے یہ عرب ثقافت کا حصہ تھی اور یہ سنت عادیہ تھی ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ ٹوپی پہننا سنت ہے، خود آپ ﷺ بھی ٹوپی پہنتے تھے اور حضرات صحابہ کرامؓ بھی ٹوپی پہنتے تھے۔
2۔یہ کہنا درست نہیں کہ “یہ (ٹوپی) باقاعدہ آپﷺ کی سنت نہیں، یہ عرب ثقافت کا حصہ تھی” کیونکہ عرب کی ثقافت میں عمامہ (پگڑی) کا ذکر ملتا ہے، ٹوپی کا ذکر نہیں ملتا البتہ یہ بات درست ہے کہ ٹوپی پہننا سنت عادیہ (جو کام آپﷺ نے بطور عادت کے کیے ہوں ان میں سے) ہے اور سنت عادیہ بھی عمل کے لیے ہوتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو تمام اُمور میں ہمارے لیے بہترین نمونہ بنایا ہے۔
نوٹ: جس علاقے یا زمانے میں ننگے سر رہنا کفار یا فساق کی عادت بن جائے جیسا کہ آجکل ہمارے علاقے اور زمانے میں ہے تو ایسی صورت میں اکثر وبیشتر ننگے سر رہنا مشابہت کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔
1۔مشکوٰۃ المصابیح (2/1243) میں ہے:
وعن أبي كبشة قال: كان كمام أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بطحا
ترجمہ: حضرت کبشہؓ فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺ کی ٹوپیاں کشادہ ہوتی تھیں۔
مشکوٰۃ المصابیح (2/1264) میں ہے:
وعنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر دهن رأسه وتسريح لحيته ويكثر القناع كأن ثوبه ثوب زيات. رواه في شرح السنة
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ اکثر سر پر تیل لگاتے تھے اور داڑھی کو کنگھی کرتے تھے اور اکثر سر پر ایک کپڑا رکھتے تھے (زیادہ سر پررکھنے کی وجہ سے) وہ تیل فروش کے کپڑے کی طرح ہوجاتا تھا۔
المعجم الکبیر للطبرانی (13/204) میں ہے:
عن ابن عمر، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس قلنسوة بيضاء
ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ سفید ٹوپی پہنتے تھے۔
سنن دار قطنی (1/19) میں ہے:
عن ابن عمر «أنه كان إذا مسح رأسه رفع القلنسوة ومسح مقدم رأسه»
ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ کا معمول تھا کہ جب سر کا مسح کرتے تو اپنی ٹوپی کو اٹھاتے اور سر کے سامنے والے حصے کا مسح کرتے۔
الجامع الصغیر (2/120) میں ہے:
عن ابن عباس ان النبي صلى الله عليه وسلمكان يلبس القلانس تحت العمائم ويلبس القلانس بغير العمائم
ترجمہ: حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ ٹوپی عمامے کے نیچے پہنتے تھے اور کبھی ٹوپی بغیر عمامے کے بھی پہنتے تھے۔
2۔المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام (9/ 48) میں ہے:
«وتختلف كسوة الرأس عند العرب باختلاف منزلة الرجل ومكانته ووضعه وحاله.
و”العمامة” هي فخرهم وعزهم وأفخر ملبس يضعونه على رءوسهم. حتى قيل: “عمم الرجل: سوّد؛ لأن تيجان العرب العمائم، فكما قيل في العجم: توج من التاج، قيل في العرب: عمم”، “والعرب تقول للرجل إذا سود: قد عمم، وكانوا إذا سودوا رجلًا عمموه عمامة حمراء”. وورد عن عمر قوله: “العمائم تيجان العرب”. وهي تعد عادة من عادات العرب. خاصة العرب أصحاب الجاه والمكانة والنفوذ من حضر وبادية، فإنها تميزهم عن بقية الناس»
المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام (9/ 52) میں ہے:
«وقد كان الجاهليون يوفقون أيضًا بين نوع ملابسهم، فكانوا يلبسون مثلًا عمامة خز مع جبة خز ومطرف خز1 وذلك للتناسق في اللباس.
وجعلوا العمامة شعارًا للعرب ورمزًا لهم، إذا زال زالت عروبتهم. “قال غيلان بن خرشة للأحنف: يا أبا بحر. ما بقاء ما فيه العرب؟ قال: إذا تقلدوا السيوف، وشدوا العمائم، واستجادوا النعال، ولم تأخذهم حمية الأوغاد”.وورد “في الخبر، إن العمائم تيجان العرب، فإذا وضعوها وضع الله عزهم”.
وقيل: اختصت العرب: بالعمائم تيجانها، وبالدروع وبالسيوف وبالشعر.
فتاوی محمودیہ (19/270) میں ہے:
سوال: نصف ساق تک کرتہ سنت مؤکدہ یا غیر مؤکدہ ہے؟ اگر کوئی اس کو ترک کرے تو گناہ گار ہوگا یا نہیں؟
جواب: مؤکدہ اور غیر مؤکدہ سنن ہدیٰ کی قسمیں ہیں ۔ کرتہ وغیرہ کا طول اور ہیئت سنن زوائد میں سے جس میں یہ تقسیم نہیں ایسی سنن کا حکم یہ ہے کہ بنیت اتباع اختیار کرنے میں ثواب ملے گا ،ترک کرنے میں ثواب سے محرومی ہوگی۔ لیکن کفار یا فساق کے شعار کو اختیار کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔
فتاویٰ عثمانی (4/344) میں ہے:
اس کے برعکس یہ تشریح کہ مشرکین عمامہ نہیں پہنتے صرف ٹوپی پہنتے ہیں،ملا علی قاری نے جزری کے حوالے سے بعض نامعلوم علماء سے نقل کی ہے اور معلوم علماء میں سے صرف میرک کا حوالہ دیا ہے اور غور کرنے سے یہ تشریح صحیح معلوم نہیں ہوتی۔کیونکہ اول تو مشرکین عرب میں عمامہ کا رواج تھا،بلکہ یہ ان کا شعار سمجھا جاتا تھا۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو” المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام” لجواد علی ص:48تا52 جس میں وہ کہتے ہیں کہ:
و”العمامة” هي فخرهم وعزهم وأفخر ملبس يضعونه على رءوسهم
اور آخر میں لکھتے ہیں:
وجعلوا العمامة شعارًا للعرب ورمزًا لهم، إذا زال زالت عروبتهم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved