• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا والد کی دی ہوئی رقم سے کاروبار شروع کرنے کی صورت میں وہ کاروبار وراثت میں تقسیم ہوگا؟

استفتاء

مؤدبانہ گزارش ہے کہ ایک مسئلہ میں راہنمائی درکار ہے۔ ہمارے والد صاحب کا انتقال ****میں ہوا۔ ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے بیٹے کو 25000 (پچیس ہزار) روپے ديے۔ اس وقت والد صاحب کوئی ملازمت نہیں کرتے تھے لیکن کرایہ کے گھر سے  15000روپے کرایہ آتا تھا اور 5000 روپے پینشن آتی تھی اور بڑے بیٹے کی تنخواہ (25000)بھی اسی میں شامل ہوتی  تھی۔ (بقول بڑے بیٹے کے یہ رقم بھی میرے پیسوں سے ہی دی تھی کیونکہ میں ملازم تھا اور والد صاحب ریٹائرہوچکے تھے، ان کی پینشن بھی زیادہ نہیں تھی، اس کے علاوہ گھر کا کرایہ بھی آتا تھا لیکن وہ بھی بہت کم تھا زیادہ تر آمدنی میری تنخواہ سے تھی) اس کے علاوہ کوئی اور بھائی کمائی نہیں کرتے تھے بلکہ پڑھتے تھے تو والد صاحب نے مذکورہ  ذرائع آمدنی میں سے 25000 روپے کاروبار کے لیے ديے تو بڑے بیٹے نے کسی کے ساتھ 50 فیصد شراکت پر کام شروع کیا، کام چلا تو دو دکانیں ہوگئیں اور دونوں شراکت والی تھیں۔ پھر دو دکانوں میں سے ایک دکان دوسرے نمبر والے بھائی کو دے دی اور 3,17000 (تین لاکھ سترہ ہزار ) کا مال بھی ڈال کر دیا تھا جس میں دوسرا شخص 50 فیصد میں شریک تھا، پھر دوسرے بھائی نے 50فیصد شراکت والے کو اس کے حصے کے پیسے  دے کر اس کو اس دکان سے الگ کردیا۔ اب اس دوسری دکان کی مکمل دیکھ بال اور ذمہ داری دوسرے بھائی پر تھی۔ والد صاحب زندگی میں واضح طور پر کہا کرتے تھے کہ  یہ دکانیں کسی کی ذاتی نہیں، سب بھائیوں کی  مشترک  ہیں جس پر کسی بھائی نے زندگی میں نفی نہیں کی البتہ ہر بھائی اپنے کاروبار میں خود مختار تھا ، ہماری فیملی اکٹھی تھی اور اب بھی اکٹھی ہے، بڑے بھائی کو  والد صاحب نے خرچہ میں الگ کردیا تھا، وہ اپنا خرچہ وغیرہ خود ہی اٹھاتے تھے اور یہ بھی صرف خرچہ میں الگ کیا تھا (یعنی باقی بھائی اپنا خرچہ اکھٹا ہی کرتے تھے لیکن بڑے بھائی کو والد صاحب نے کھانے پینے اور بلوں وغیرہ کے خرچوں میں الگ کردیا تھا ،البتہ گھر کے دیگر خرچوں میں وہ سب کے ساتھ شریک تھا مثال کے طور پر اگر گھر میں کوئی فنکشن ہوتا تو اس کا انتظام سب کے ذمے مشترکہ طور پر ہوتا تھا)اور اس کی وجہ  کوئی لڑائی وغیرہ نہیں تھی  بلکہ اس لیے الگ کیا تھا کہ  بڑے بھائی کے بچے بڑے ہوگئے تھے۔ باقی بھائی اکٹھے رہتےتھے  تو جب دوسری دکان شروع ہوئی تو اس وقت بڑے بھائی الگ نہیں تھے اس لیے والد صاحب دوسری دکان سے خرچ لے کر  گھرکے تمام افراد بشمول  بھائیوں پر خرچ کرتے تھے۔ والد صاحب جس دکان سے مناسب سمجھتے تھے خرچ لیتے تھے پھر تیسرے بھائی کی نوکری شروع ہوئی اور تنخواہ  آنا شروع ہوئی  والد صاحب تنخواہ میں سے بھی جتنا چاہتے لے لیتے تھے، الغرض گھر کا سارا اختیار والد صاحب کے پاس تھا۔پھر پہلے بھائی نے تیسرے نمبر والے بھائی کو کہا کہ تم نوکری چھوڑ دو اور کاروبار میں آجاؤ کیونکہ اس میں نفع زیادہ ہے، تو تیسرے بھائی نے نوکری چھوڑ دی اور پہلے بھائی کی دکان کا  جتنا مال تھا اس کی قیمت پہلے بھائی کو ادا کردی اور خود دکان سنبھال لی۔ اس دکان میں تیسرا اور چوتھا بھائی اکٹھے تھے، پہلا بھائی اپنی دکان انہیں دے کر آگے شفٹ ہوگیا اور اپنے شریک کے ساتھ مل کر نئی دکان بنالی، اس میں مزید بات یہ ہے کہ دوسرے بھائی نے اپنی دکان کے ساتھ ایک سائیڈ بزنس شروع کرلیا تھا، اس سائیڈ بزنس میں دوسرے بھائی کی محنت تھی اور سرمایہ کسی اور کا تھا، اس سائیڈ بزنس کی وجہ سے دوسرے بھائی اپنی دکان کو وقت کم دینے لگے جس سے دکان میں نقصان ہونے لگا تو دوسرے بھائی نے تیسرے اور چوتھے بھائی کو کہا کہ تم دونوں ایک دکان پر ہو تو دونوں میں سے ایک میرے والی دکان پر آجائے کیونکہ تمہاری دکان میں ایک بندہ کافی ہے(جبکہ دونوں بھائیوں کا کہنا ہے کہ وہاں ایک بندہ کافی نہ تھا) لیکن ان دونوں میں سے کوئی نہ آیا جس سے دوسرے بھائی کو نقصان کی وجہ سے دکان بند کرنا پڑی لہٰذا وہ دکان بیچ دی اور اس کا پیسہ کچھ والد صاحب کے عمرہ میں دے دیا اور باقی والد صاحب کے کہنے پر ہمشیرہ کو ادھار کی شکل میں دے دیا تھا۔ والد صاحب کی زندگی میں تو سب کرتا دھرتا والد صاحب  تھے، ان کی وفات کے بعد اب سب کچھ والدہ کرتی ہیں، ان کا کہنا بھی یہی ہے کہ سب کاروبار مشترکہ ہے، جب چوتھے بھائی کی شادی ہوئی تو اس وقت بھی سب بھائیوں نے برابر کا حصہ ڈالا تھا۔ جبکہ بھائیوں  میں اختلاف ہے کہ یہ کاروبار مشترکہ ہے یا جس بیٹے نے محنت کرکے دکان بنا لی وہ اسی کی ہے اور اس کا نفع نقصان بھی اسی کا ہے۔ اس میں شریعت کیا کہتی ہے کہ کیا یہ ساری دکانیں والد صاحب کی وراثت شمار ہوں گی اور اولاد میں تقسیم ہوں گی یا دکان ہر بیٹے کی اپنی ہے؟

ہمارے خاندان  میں  ہماری خالہ کے بیٹوں کا بھی مشترکہ کاروبار تھا ،انہوں نے بھی جب اپنا کاروبار تقسیم کیا تھا تو سب بھائیوں کو ایک برابر حصہ ملا تھا۔

نوٹ:ہم 4بھائی اور دوبہنیں ہیں،والدہ بھی حیات ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تمام دکانیں آپ کے والد صاحب کی وراثت  ہیں اور تمام ورثاء بشمول آپ کی والدہ اور بہنوں میں ان کے وراثتی حصوں کے مطابق تقسیم کی جائیں گی۔جس میں شرعی لحاظ سے آپ کی والدہ کے 10 حصے،ہر ایک بھائی کے 14حصے جبکہ ہر بہن کے  7 حصے بنتے ہیں ۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے۔

مسئلہ:8×10=80

میـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت

بیوی               بیٹا              بیٹا              بیٹا               بیٹا               بیٹی      بیٹی

1/8                                           عصبہ

1                                                 7

1×10=10                             7×10=70

10               14            14            14            14            7      7

توجیہ : مذکورہ صورت میں چونکہ تمام بھائی اپنے والد صاحب کی نگرانی میں ہی سب کام کرتے تھے اور خرچہ بھی ان ہی کے تحت مشترکہ تھا  لہذا سب ان کی  عیال میں ہی  شمار ہونگے اور ان  کی سب کمائی والد کی ہی شمار ہوگی جو ان کے مرنے کے بعد سب ورثاء میں تقسیم ہوگی ۔ جو بیٹا ملازمت کرتا تھا وہ بھی چونکہ مشترکہ کھاتے کی وجہ سے باپ کو ہی مالک بنا دیتا تھا لہٰذا  اس کی مستقل حیثیت نہ سمجھی جائے گی۔

امداد الفتاوی(515/3) میں ہے:

سوال: ایک استفتاء آیا ہے جس کا جواب یہ سمجھ میں آتا ہے لیکن دو متضاد روایت قیل قیل کرکے لکھا ہے کس کو ترجیح دی جائے۔شامی فاروقی(349)فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ:

تنبیه: یؤخذ من هذا ما أفتی به فی الخیریة فی زوج امراة وابنها اجتمعا فی دار واحدة وأخذ کل منهما یکتسب علی حدة ویجمعان کسبهما ولا یعلم التفاوت ولا التساوی ولا التمييز فاجاب بانه بينهما سوية الخ

چند سطروں  کے بعد لکھا ہے:

فقیل هی للزوج وتکون المرأة معینة له الااذا کان لها کسبا علی حدة فهو لها وقیل بینهما نصفان(والسلام)

الجواب: میرے نزدیک ان دونوں روایتوں میں تضاد نہیں۔ وجہ جمع یہ ہے کہ حالات مختلف ہوتے ہیں جن کی تعیین کبھی تصریح سے کبھی قرائن سے ہوتی ہے یعنی کبھی تو مراد اصل کا سب ہوتا ہے اور عورت کے متعلق عرفا  کسب  ہوتا ہی نہیں۔وہاں تو اس کو معین سمجھا جائے گا اور کہیں گھر کے سب آدمی اپنے اپنے لیے کسب کرتے ہیں جیسا کہ اکثر بڑے شہروں میں مثل دہلی وغیرہ کے دیکھا جاتا ہے وہاں دونوں کو کاسب قرار دے کر عدم امتیاز مقدار کے وقت علی السویہ نصف نصف کا مالک سمجھا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved