• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لاعلمی میں رضاعی بھتیجی سے شادی کرلی اور وہ حاملہ ہوگئی، اب نکاح اور بچے کے نسب کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک بچے (**) نے دو سال سے کم عمر میں اپنی دادی کا دودھ پیا اپنی پھوپھی کے ہمراہ، پھر اس بچے کی شادی اپنے چچا کی بیٹی سے ہوگئی جس کے نتیجے میں لڑکی اب سات ماہ کی حاملہ ہے۔ لڑکے کے علم میں اب آیا ہے  کہ اس نے اپنی دادی کا دودھ پیا ہے جس سے اس لڑکے کے چچا (جس کی بیٹی سے اس نے نکاح کیا ہے) رضاعی بھائی بنتے ہیں۔ اس بات کا علم شادی کے وقت لڑکے یا کسی دیگر فرد کو نہ تھا لیکن اب علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ شادی ناجائز ہے اور نہ ہی بچے کو شوہر اپنا نام دے سکتا ہے اور لڑکی کو بھی طلاق دینا ہوگی۔ لہٰذا استدعا ہے کہ اس مسئلہ پر رہنمائی فرمائیں۔

دار الافتاء سے فون کے ذریعے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے یہ بیان دیا:

’’مذکورہ صورت حال درست ہے، دودھ پینے پر کئی گواہ بھی ہیں اور دادی بھی کہہ رہی ہیں کہ میں نے تمہیں کئی دن دودھ پلایا تھا اور میں ان کی تصدیق کرتا ہوں‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں یہ نکاح درست نہیں ہوا، کیونکہ جب لڑکے (**) نے بچپن میں اپنی دادی کا دودھ پیا تھا تو لڑکے کا چچا اس کا رضاعی بھائی بن گیا تھا، اور چچا کی بیٹی رضاعی بھتیجی بن گئی تھی اور جس طرح حقیقی بھتیجی سے نکاح کرنا جائز نہیں، اسی طرح رضاعی بھتیجی سے بھی نکاح کرنا جائز نہیں۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں شوہر نے لاعلمی میں جو نکاح کیا تھا وہ فاسد ہے جسے فسخ کرنا ضروری ہے، اور نکاح فسخ کرنے کے لیے شوہر یہ کہہ دے کہ ’’میں نے بیوی کو چھوڑ دیا‘‘ یا  شوہر بیوی کو طلاق دے دے یا میاں بیوی میں سے کوئی ایک یہ کہہ دے کہ ’’میں نے اپنا نکاح جو فلاں سے ہوا تھا، فسخ کیا‘‘ البتہ مذكوره صورت میں اس حمل سے جو بچہ پیدا ہوگا اس کا نسب شوہر (**) سے ثابت ہوگا۔

ہندیہ (1/343) میں ہے:’’يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا …. فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته‘‘در مختار مع رد المحتار (4/266) میں ہے:(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) ….(و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه دخل بها أو لا) في الأصح خروجا عن المعصية. فلا ينافي وجوبه بل يجب على القاضي التفريق بينهما (وتجب العدة بعد الوطء) لا الخلوة للطلاق لا للموت (من وقت التفريق) أو متاركة الزوج وإن لم تعلم المرأة بالمتاركة في الأصح (ويثبت النسب) احتياطا بلا دعوةقال الشامي تحته: قوله: (من وقت التفريق) أي تفريق القاضي، ومثله التفرق وهو فسخهما أو فسخ أحدهما. ح …….. (قوله أو متاركة الزوج) في البزازية: المتاركة في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك …… والطلاق فيه متاركة لكن لا ينقص به عدد الطلاق، وعدم مجيء أحدهما إلى آخر بعد الدخول ليس متاركة لأنها لا تحصل إلا بالقول. وقال صاحب المحيط: وقبل الدخول أيضا لا يتحقق إلا بالقول. اهـ. وخص الشارح المتاركة بالزوج كما فعل الزيلعي لأن ظاهر كلامهم أنها لا تكون من المرأة أصلا مع أن فسخ هذا النكاح يصح من كل منهما بمحضر الآخر اتفاقا. والفرق بين المتاركة والفسخ بعيد كذا في البحر……. (قوله احتياطا) أي في إثباته لإحياء الولد.طامداد الاحکام (2/267) میں ہے:’’جب نکاح صحیح نہ ہوا تو لڑکی کو شوہر سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں بلکہ چند آدمیوں کے سامنے اسے اتنا کہہ دینا چاہئے کہ ’’میں اپنے نکاح کو جو فلاں شخص سے ہوا تھا فسخ کرتی ہوں‘‘ اور بہتر یہ ہے کہ شوہر کے سامنے بھی یہ بات کہہ دے گو ضرورت نہیں۔۔۔ ۔ اگر ہمبستری ہوچکی ہے تو مذکورہ بالا کلمات کہنے کے بعد تین حیض گذرنے پر وہ اپنا نکاح دوسرے سے کرسکتی ہے:قال في الخلاصة: … والمتاركة في النكاح الفاسد بعد الدخول لا يكون إلا بالقول کتركتك أو خليت سبيلك إلى أن قال وفي المحيط: لكل واحد فسخ هذا العقد بغير محضر من صاحبه قبل الدخول وبعد الدخول ليس لكل واحد حق الفسخ الا بحضرة صاحبه كالبيع الفاسد وعند بعض المشائخ لكل واحد حق الفسخ بعد الدخول وقبله ….. الخ (ج2، ص41)‘‘فتاویٰ دار العلوم دیوبند (7/304) میں ہے:’’(سوال ۶۸۸)  ۔(۱)ہندہ نے  اپنے سوتیلے بھائی خالد کو مدت رضاعت کے اندر دودھ پلایا، ہندہ کے زید پیداہوا، اور خالد کے دختر زینب تولد ہوئی، زید کا نکاح زینب سے درست ہے یا نہیں ؟

(۲)  صورتِ مذکورہ میں اگر بوجہ ناواقفی عقد ہوجاوے تو کیا حکم ہے؟ تفریق کی ضرورت ہے یا خود جدا ہوسکتے ہیں ؟

(۳)  صورت ِ مذکورہ میں اگر دخول اور خلوت کے بعد تفریق ہو تو شوہر کے ذمہ کیا واجب ہے ؟

( ۴)  اگر  قبل دخول و خلوۃ تفریق ہوجائے تو عورت پر عدت ہے یا نہیں؟ بر تقدیرِ اول شہور سے عدت ہوگی یا اقراء سے ؟

(۵)  اگر عقدِ مذکور کے بعد زوج نے دخول کیا اور علوق ہوگیا تو [بچہ] ثابت النسب ہوگا یا ولد الزنا؟ (۶)حرمت رضاعت کی کوئی ایسی  علت جامعہ بیان فرمائیے کہ جہاں اس کا وجود ہو حرمت متحقق ہوجائے؟

(الجواب ): (۱)  نکاح زید کا ساتھ زینب کے شرعاً حرام ہے اور شعر مشہور از جانب شیردہ الخ  سے حرمت نکاح مذکور ثابت ہے اور حدیث  ’’یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب‘‘ سے بھی حرمت نکاح مذکور کی ثابت ہے اور درمختار میں ہے: ولا حل بین الرضیعة وولد مرضعتها ای التی ارضعتها وولد ولدها لانه ولد الاخ… الخ

(۲) تفریق ضروری ہے اور متارکت کردینا کافی ہے شوہر اس کو علیحدہ کردے اسی سے تفریق ہوجاوے گی۔

( ۳) بصورت دخول و خلوت مہر مثل لازم ہے اور بصورت عدم دخول و خلوت کے کچھ لازم نہیں ہے۔

( ۴)  قبل الدخول تفریق میں عدت لازم نہیں اور بعد دخول عدت لازم ہے اور عدت حائضہ کے لئے تین حیض ہیں۔

( ۵) نسب ثابت ہوگا۔ کذافی الشامی۔

( ۶) حدیث مذکور ’’یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب‘‘ اور  شعر فارسی معروف دربارہ حرمت رضاعت قاعدہ کلیہ اور علت جامعہ ہے۔فقط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved