• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لا علمی میں طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے طلاق کاحکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام دریں مسئلہ کہ میری دوشادیاں ہیں جب میری پہلی بیوی شمیم نے میرے اوپر نان نفقہ کا دعوی کردیا تو میں عدالت میں پیش ہوا کچھ عرصہ کے بعد میرا مال بحکم عدالت نیلام کردیا گیا ۔میں اپنے گھر واپس  آکر اپنے کام پر لگ گیا پھر کچھ عرصہ بعد اپنے  آبائی گھر واپس گیا تو میرے سسرال والوں نے مجھے گرفتار کروایا دوران قید مجھے سے صلح کی کوشش ہوئی اور کچھ کاغذات پر تحریریں ہوئی اور ان تحریروں کے دوران طلاق وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہوا جب میں قید سے رہا ہوکر واپس  آیا تو مجھے بتایا گیا کہ  آپ کی دوسری بیوی خدیجہ الکبری کو طلاق ہو گی ہے تو میں پریشان ہوا وہ کیسے طلاق ہو گئی ہے مجھے بتایا گیا جو  آپ سے دوران قید ایک اشٹام پر دستخط انگوٹھے لگوائے تھے وہ طلاق نامہ تھا وہ میرے دوسری بیوی کو بھیج دیا ۔اب میں حلفا قر آن مجید کے سامنے بیان دیتا ہوں کہ میں نے نہ طلاق دی ہے اور نہ طلاق نامہ سمجھ کر کسی کاغذ پر دستخط انگوٹھے لگائے ہیں ۔وہ طلاق نامہ میری بیوی کو بھیج دیا گیا ۔وہاں بیوی (خدیجہ)سمیت دو تین لوگوں نے پڑھا مگر اس کے بعد اسے پھاڑ دیا گیا ۔بقول ان لوگوں کے اس طلاق نامے کا مضمون یہ تھا :

میں مسمی عنصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ۔۔۔۔۔اپنی بیوی خدیجہ کو طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق ۔۔۔۔۔۔الخ اس کے بعد میرے دستخط اور انگوٹھے وغیرہ تھے ۔

بیوی کا بیان :

مجھے اپنے خاوند کی اس بات پر اطمینان ہے کہ اس نے بغیر پڑھے دستخط کیے ہوں گے اور انہیں اس کا علم نہیں تھا کہ اس میں کیا لکھا ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر واقعتا یہ بات درست ہے کہ شوہر نے نہ تو کسی کو طلاق نامہ لکھنے کا کہا تھاور نہ ہی کسی طلاق نامے پر طلاق نامہ سمجھ کر یا پڑھ کر دستخط کیے تھے تو مذکورہ صورت میں ذکر کردہ طلاق نامے کی رو سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved