• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لیبارٹری والوں کے لیےساقط ہونے والے حمل اور دیگر اجزاء انسانی کو ضائع کرنے کاحکم

استفتاء

ہم ایک میڈیکل پیتھالوجی لیبارٹری میں کام کرتے ہیں

1۔ ہمارے پاس خون کے نمونہ جات کے علاوہ کبھی حمل ضائع ہونے کی صورت میں وہ بچہ جو ماں کے پیٹ سے مردہ نکلتا ہے تشخیص کے لیے بھیجا جاتا ہے۔تشخیص کے لیے آئے سارے نمونہ جات کو ویسٹ مینجمنٹ کو (جو حکومت کی طرف سے ایک طے شدہ ادارہ ہے) دے دیا جاتا ہے۔ وہ ادارہ اس طرح کی چیزوں کو تلف کرنے کے لیے جلا دیتے ہیں۔

2۔ان چیزوں میں عورتوں کا رحم بھی ہوتا ہے جو کینسر کی بیماری کی وجہ سے نکال دیا جاتا ہے۔ کیا ان نمونہ جات کو (جن میں عورت کا رحم یا وہ بچہ جو مردہ پیدا ہوا ہو بھی شامل ہوتا ہے)  اس طرح جلانا درست ہے؟ اگر درست نہیں تو اس کا گناہ ہمیں تو نہیں ہوگا؟

واضح رہے کہ لیبارٹری کے نمونہ جات کا تشخیص کے بعد ویسٹ مینجمنٹ کو دینا حکومتی پابندی بھی ہے کہ اگر اس پر عمل نہیں کیا جائے گا تو لیبارٹری بند کر دی جائے گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔وہ بچہ جو حمل ضائع ہونے کی وجہ سے گر جائے، اگر اس کی شکل وصورت مکمل ہو چکی ہوتو اس کو جلانا یا کوڑے میں پھینکنا جائز نہیں، بلکہ اس کو کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر نا ضروری ہے۔اس کی شرعاً دو وجوہات ہیں:

۱۔ وہ بچہ قابل احترام ہے۔

۲۔ وہ بچہ ماں (عورت) سے جدا ہونے والا ایک جزء ہےاور انسان کے جسم سے جدا ہونے والے اجزاء کو جلانا جائز نہیں بلکہ انہیں صاف جگہ میں ڈالا جائے یا دفن کیا جائے۔

2۔ اسی طرح انسان کے جسم سے جدا ہونے والے اجزاء (جیسے ہاتھ پاؤں یا عورت کا رحم وغیرہ) کو بھی جلانا یا کوڑے میں پھینکنا جائز نہیں۔ انہیں بھی دفن کرنا چاہیے۔

اگر آپ حکومتی تقاضوں کی وجہ سے ویسٹ مینجمینٹ کو دینے کے ہی پابند ہیں تو آپ کو چاہیے کہ ان کے سامنے شریعت کا تقاضا رکھیں اور حکومت اور ضائع ہونے والے بچے کے وارثین کو مسلسل توجہ دلائیں۔ ہوسکے تو کسی اتھارٹی (عدالت وغیرہ کے آگے اس بات کو رکھیں)۔ اگر آپ کی تنبیہ کے باوجود بھی  وہ اس پر عمل نہ کریں تو آپ پر اس کا گناہ نہیں۔

در مختار(117/3) میں ہے:

والسقط يلف ولا يكفن كالعضو من الميت ۔۔۔

شامی میں ہے:

قوله: (والسقط يلف) أي في خرقة لانه ليس له حرمة كاملة، وكذا من ولد ميتا.بدائع.

در مختار (154/3) میں ہے:

وإذا استبان بعض خلقه غسل وحشر وهو المختار ( وأدرج في خرقة ودفن ولم يصل عليه)

شامی میں ہے:

وهل يحشر عن أبي جعفر الكبير أنه إن نفخ فيه الروح حشر وإلا لا  والذي يقتضيه مذهب أصحابنا أنه إن استبان بعض خلقه فإنه يحشر وهو قول الشعبي وابن سيرين اه  ووجهه أن تسميته تقتضي حشره إذ لا فائدة لها إلا في ندائه في المحشر باسمه وذكر العلقمي في حديث سموا أسقاطكم فإنهم فرطكم الحديث فقال فائدة سأل بعضهم هل يكون السقط شافعا ومتى يكون شافعا هل هو من مصيره علقة أم من ظهور الحمل أم بعد مضي أربعة أشهر أم من نفخ الروح والجواب أن العبرة إنما هو بظهور خلقه وعدم ظهوره كما حرره شيخنا زكريا

البحر الرائق (375/8) میں ہے:

وشعر الإنسان والانتفاع به ) أي لم يجز بيعه والانتفاع به لأن الآدمي مكرم غير مبتذل فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهانا مبتذلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وفي النوازل يقلم الظفر يوم الجمعة لقوله عليه الصلاة والسلام من قلم أظافيره يوم الجمعة أعاذه الله من البلاء إلى الجمعة الأخرى وزيادة ثلاثة أيام ولو قلم أظافيره أو جز شعره يجب أن يدفن وإن رماه فلا بأس به وإن رماه في الكنيف أو المغتسل فهو مكروه وفي الفتاوي العتابية يدفن أربعة الظفر والشعر وخرقة الحيض والدم.

فتاویٰ محمودیہ (452/19)میں ہے:

ناخن اور بالوں کو جلانے کا حکم

سوال (۹۴۵۰) انسان کے ناخن اور بال وغیرہ کو جلانا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں تو شہری عورتوں کے جو بال کنگھی  سے نکلتے ہیں ان کو مکانات پختہ ہونے کی وجہ سے دفن نہیں کر سکتیں۔ ان کے لیے کیا صورت ہوگی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جلانا جائز نہیں ہے ایسی عورتیں  کسی کپڑے یا کاغذ میں لپیٹ کر کہیں ڈال دیں۔

وفي الخانية: ينبغي أن يدفن قلامة ظفره ومحلوق شعره وإن رماه فلا بأس وكره إلقاؤه في كنيف أو مغتسل لأن ذلك يورث داء وروي أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بدفن الشعر والظفر وقال لا تتغلب به سحرة بني آدم اه ولأنهما من أجزاء الآدمي فتحترم اھ طحطاوی ص: ۲۸۷لیکن بالوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔  فقط واللہ سبحانہ تعالی اعلم

حررہ العبد محمود گنگوہی عفا اللہ عنہ، معین مفتی مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور

امداد الفتاویٰ (46/1) میں ہے:

روایت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی جزو، ا جزاء بدن انسانی سے مثل ہاتھ یا پاؤں یا اُنگلی یا ناخن یا بال وغیرہ نمودار ہوگیا ہے تو وہ شرعاً بچّہ ہے ۔۔۔اور اس صورت میں اُس کو غسل بھی دیا جاوے گا۔ اور اگر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوئی تو وہ بچّہ نہیں ہے نہ اُس کے لئے غسل وکفن ہے نہ قاعدہ کے موافق دفن ہے۔۔۔

اس حوالے کے مفہوم مخالف سے واضح ہوتا ہے کہ جس حمل کے اجزاء ظاہر ہو جائیں اس کے لیے قاعدہ کے موافق  دفن ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved