• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لڑکی حرمتِ رضاعت کا اقرار کرے اور لڑکا انکار کرے تو کیا ان کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیانِ عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ:

پچاس سالہ ضعیفہ دادی  نے اپنی پوتی مسمات نادیہ کو پیدائش کے دو دن سے لے کر تقریبا دو سال تک اپنے سینے سے لگاتی رہی حالانکہ بیس سال سے اس کی گود میں کوئی بچہ نہ تھا اور بعد میں وہ فوت ہوگئی لیکن اس دادی نے اپنی زندگی میں مذکورہ بچی کو اپنی بیٹی کے لڑکے عبا دالرحمٰن کے نکاح میں دینے کو کہا تھا۔ اب مسئلہ دو فریقین کے درمیان آگیا ہے۔

فریقِ اول: یعنی عباد الرحمٰن اور اس کے خاندان والے کہتے ہیں کہ نادیہ کو اس کی دادی نے ہمیں دیا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے نادیہ کی دادی سے پوچھا تھا کہ تو  نے اس کو دودھ پلایا ہے تو جواب میں اس نے کہا تھا کہ اس وقت میری چھاتی میں دودھ نہیں تھا۔

فریقِ دوم: جو کہ نادیہ کا خاندان ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس صرف ایک شخص ہے جس نے نادیہ کو اپنی دادی کے سینے سے دودھ پیتے دیکھا تھا اور دودھ سے بچی کا منہ سفید ہوا تھا لیکن اس وقت وہ شخص نابالغ تھا اور خود نادیہ بھی اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ میں نے اپنے دادی کا دودھ پیا ہے۔

لہٰذا اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ نادیہ کا نکاح اپنے پھوپھی زاد یعنی عباد الرحمن سے ہوسکتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ وہ دادی فوت ہوچکی ہے اور دودھ پینے کے ثبوت کے لیے صرف ایک شخص ہے اور وہ بھی اس بارے میں اب حتمی بات نہیں کرتا اور جس لڑکی نے دودھ پیا تھا اسے ابھی بھی اقرار ہے کہ میں نے اپنی دادی کا دودھ پیا ہے۔

بواسطہ: مفتی زبیر حسن۔ جامعہ مدنیہ جدید، لاہور

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عباد الرحمٰن نادیہ سے نکاح کرسکتا ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں لڑکی اگرچہ اپنی دادی (جو لڑکے کی نانی ہے)کا دودھ پینے کا اقرار کرتی ہے لیکن اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی، کیونکہ حرمت رضاعت کے ثبوت کے لیے یا تو لڑکے کا اقرار کرنا ضروری ہے یا کم از کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے۔ مذکورہ صورت میں نہ تو لڑکا اقرار کرتا ہے اور نہ لڑکی کے پاس اپنے قول پر شرعی گواہ (دو مرد یا  ایک مرد اور دو عورتیں) موجود ہیں اور خود دودھ پلانے والی خاتون نے بھی اپنی زندگی میں کہہ دیا  تھا کہ جب میں نے بچی کو چھاتی سے لگایا تھا تو اس وقت میری چھاتی میں دودھ نہیں تھا اس لیے مذکورہ صورت میں حرمت ثابت نہ ہوگی۔

در مختار مع رد المحتار (4/409) میں ہے:

(و) الرضاع (حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتين

بدائع الصنائع (3/414) میں ہے:

وأما بيان ما يثبت به الرضاع  أي يظهر به فالرضاع يظهر بأحد أمرين أحدهما الإقرار والثاني البينة….. إلى ان قال ….. وأما البينة فهي أن يشهد على الرضاع رجلان أو رجل وامرأتان ولا يقبل على الرضاع أقل من ذلك ولا شهادة النساء بانفرادهن وهذا عندنا

در مختار مع رد المحتار (4/408) میں ہے:

وإن) (أقرت) المرأة بذلك (ثم أكذبت نفسها وقالت: أخطأت وتزوجها جاز كما لو تزوجها قبل أن تكذب نفسها) وإن أصرت عليه لأن الحرمة ليست إليها، قالوا: وبه يفتى في جميع الوجوه. بزازية

(قوله: جاز) أي صح النكاح (قوله: لأن الحرمة ليست إليها) أي لم يجعلها الشارع لها فلا يعتبر إقرارها بها. ط. (قوله في جميع الوجوه) أي سواء أقرت قبل العقد أو لا، وسواء أصرت عليه أو لا، بخلاف الرجل فإن إصراره مثبت للحرمة كما علمت، ويفهم مما في البحر عن الخانية أن إصرارها قبل العقد مانع من تزوجها به، ونحوه في الذخيرة لكن التعليل المذكور يؤيد عدمه (قوله: بزازية) ذكر ذلك في البزازية آخر كتاب الطلاق حيث قال: قالت لرجل: أنه أبي رضاعا وأصرت عليه يجوز أن يتزوجها إذا كان الزوج ينكره، وكذا إذا أقر به ثم أكذبته فيه لا يصدق على قولها لأن الحرمة ليست إليها، حتى لو أقرت به بعد النكاح لا يلتفت إليه

قال الرافعي: قوله: (وكذا إذا أقر به ثم أكذبته فيه الخ) الذي رأيته في نسخة من البزازية: وكذا إذا أقرته ثم أكذبته فيه، ولا يصدق على قولها إلخ. فلتراجع نسخة أخرى ثم رأيت نسخة أخرى بلفظ وكذا إذا أقرت ثم أكذبته فيه ولا يصدق إلخ. بدون ضمير.

فتاویٰ دار العلوم دیوبند (7/306) میں ہے:

’’(سوال ۶۹۱): ایک مرد بیوہ عورت سے عقد کرنا چاہتا ہے، چنانچہ مرد نے اپنی ہمشیرہ کے ذریعہ سے اس عورت سے عقد کی بابت کہلوایا، اس نے جواب دیا کہ میں نے ان کی والدہ کا ایک مرتبہ دودھ پیا ہے اور شاید خود ان کی والدہ ہی نے مجھ سے کہا تھا کہ تیری ماں سورہی تھی اور تو رو رہی تھی تو میں نے تیرے منہ میں دودھ دے دیا تھا، اور کسی سے مجھ کو یہ بات معلوم نہیں ہوئی اور بیوہ مذکورہ نے دریافت کرنے پر یہ بھی کہا کہ شاید میری غلطی ہو، کسی اور کی بابت کہا ہو اور مجھ کو یہ یاد رہا۔ پچیس تیس برس کی بات ہے۔ مرد نے چند روز کے بعد بیان کیا کہ بہت غور کے بعد کچھ خیال مجھ کو بھی ہوتا ہے کہ اس بیوہ عورت نے مجھ سے بھی شاید یہ بات کہی تھی مگر شبہ کے ساتھ یہ خیال ہوتا ہے پورے طور پر یاد نہیں ہے۔

(الجواب): چونکہ اس صورت میں پوری شہادت شرعیہ موجود نہیں ہے یعنی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ دودھ پلانے کی نہیں ہیں تو شرعا حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اور وہ عورت بیوہ اس مرد کی بہن رضاعی نہیں ہوتی اور شبہ سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی، لہٰذا از راہِ فتویٰ وحکمِ شریعت اس مرد کو اس عورت بیوہ سے نکاح کرنا درست ہے۔ البتہ اگر وہ مرد اس عورت کی اس بارے میں تصدیق کرے تو احوط ہے کہ اس سے نکاح نہ کرے اور اگر مرد اس کی تصدیق نہیں کرتا اور بیوہ کو بھی یقینی طور سے مرد کی والدہ کا قول یاد نہیں اور یاد بھی ہو تو وہ صرف ایک عورت کا قول ہے تو اس حالت میں حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی اور نکاح صحیح وجائز ہے۔ قال في الدر المختار: وحجته حجة المال وهي شهادة عدلين أو عدل عدلتين ..الخ فقط‘‘

فتاویٰ محمودیہ (13/618) میں ہے:

’’سوال[۶۶۹۶]: ایک لڑکی کی عمر جب کہ اس کی والدہ فوت ہوئی ڈیڑھ سال تھی اور اس کی نانی حقیقی جس کی عمر ۵۸ سال تھی اور آٹھ لڑکیاں اور ایک لڑکا اس کی عمر میں پیدا ہوا تھا جو موجود تھا اور اس کی اخیری لڑکی دس سالہ اس وقت تھی۔ اس نانی نے بنظرِ پرورش نواسی خود اپنی چھاتیوں سے اس لڑکی کو لگایا کہ شاید دودھ اتر آئے، مگر دودھ نہ اترا اور اس بچہ کو گائے وغیرہ کے دودھ پلائے۔ نانی مذکورہ حلفیہ بیان کرتی ہے کہ میرے دودھ نہیں اترا، البتہ چھاتیاں چوستا ضرور رہا۔ اب اس لڑکے کا نکاح ہمراہ پوتی نانی یعنی لڑکے کے ماموں کی بیٹی سے درست ہے یا نہیں؟

الجواب حامدا ومصلیا: صورتِ مسئولہ میں حرمت رضاعت شرعاً ثابت نہ ہوگی: ’’ وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول لم يكن في ثديي لبن حين ألقمتها ثديي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية.‘‘ اهـ شامی ۳/۲۲۲[4/392]‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved