- فتوی نمبر: 2-345
- تاریخ: 04 جولائی 2009
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
وجوہات بنام دارالتقوی جو لڑکی کو لڑکے سے خلع حاصل کرنے کے بارے میں ہیں۔
1۔عرض یہ ہے کہ میں ایک پڑھی لکھی عورت ہوں جو شہر کے ماحول میں پروان چڑھ چکی ہے ، میں بچپن سے کسی کو پسند کرتی تھی ، جو میرا پھوپھا زاد تھا۔ جس کی وجہ سے میرا ذہن کسی اور کے بارے میں سوچنے کو تیار نہیں تھا، وہ ہر لحاظ سے ایک اچھا انسان تھا۔ مجھے اچھا لگتاتھا کہ کسی اور کو شوہر کے طور پر تسلیم کرنا میرے لئے زبردستی سے ریپ کرنے کے برابر تھا۔ میں ایک مذہبی ذہن رکھنے والی عورت ہوں ۔ لیکن پھر بھی میں اپنی اس کیفیت کو دور نہیں کرپائی۔
2۔جس لڑکے سے میرا نکاح ہونے والاتھا۔ وہ میرا چچازاد تھا اور قریبی رشتے کی بناء پر میں اسے بھائی کہہ کہ پکارتی تھی اور سمجھتی بھی تھی اس لیے میرا ذہن اسے شوہر کے طور پر تسلیم نہیں کررہاتھا۔
3۔زنا، نشہ وچوری،دنگا فساد جیسی بری خصلتیں اس کا معمول تھا۔ اچھے کام کے بارے میں وہ سوچتابھی نہ تھا جبکہ میرے پھوپھا زاد ان سب خامیوں سے پاک تھا۔ ایک مذہبی عورت اس کو اپنانے کا کیسی سوچ سکتی ہے۔
5۔وہ پہلے سے ہی کسی کو پسند کرتاتھا اور نکاح والے دن بھی اس نے کہا تھا کہ یہ تو میرے ماں باپ نے میرے مرضی کے بغیر کی ہے، میں اپنی پسند سے دوسری شادی کرونگا۔
6۔ وہ تعلیمی لحاظ سے بھی مجھ سے کم تھا جبکہ میرا پھوپھا زاد مجھ سے زیادہ پڑھا لکھا تھا۔
7۔ وہ مالی لحاظ سے بھی بہت کمزور تھا جو اتنی بڑی بات نہیں تھی لیکن وہ ایک نکما شخص تھا جو اپنے خاندان کے ہر فرد کا جینا دوبھر کرنے کے لیے بیٹھا رہتا۔ بلکہ ان خصلتوں کی بناء پر خاندان تو کیا پورا گاؤں اسے تنگ تھا۔ وہ تواغواء جیسی بری بات کے لیے بھی تیار تھا۔ میں اسے سخت نفرت کرتی تھی۔ کس صورت میں میرا نکاح ہوا؟
1۔میرے گھر والوں نے میرے اوپر دباؤ ڈالا کہ پھوپھا زاد کے علاوہ میں کسی اور سے شادی کرنے پرراضی ہوجاؤ میں نے کہا کہ بے شک مجھے گھر میں بٹھالو لیکن خدارا میرا ذہن کسی اور سے شادی کرنے کے تیار نہیں، لیکن میری بات کسی نے نہیں سنی ، مار پیٹ ، گالی گلوچ اور دھمکیوں سے میرا نکاح میرے چچا زاد سے کرڈالا، پہلے میرے باپ نے خود اس سے نکاح پڑھوایا ، پتہ چلنے پر میں نکاح کو قبول کرنے سے انکار کردیا میں کہا کہ مجھے یہ نکاح قبول نہیں۔
ا س کے بعد میرے چچا اور میرے باپ دونوں نے مل کر مجھے دوبارہ نکاح کرنے پر مجبور کیا۔ میں نے کہا کہ میں مولوی صاحب سے کہہ دونگی کہ یہ میری زبردستی نکاح کروارہے ہیں ، تو انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی کہ پھر تو تیرا باپ ہی تجھے سنبھالے گا ، میرا باپ مجھے قتل کرنے مارنے پر تیار تھا۔ اور میں موت کی خوف سے نکاح کے لیے بیٹھ گئی میرا چچا میرا وکیل بن کر میرے پاس آئے اور میں نے اقرار کیا لیکن مجھے یاد نہیں کہ میں سرہلا کر اقرار کیا تھا یا منہ سے ۔ کیونکہ میں نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی۔ میرے چچا نے مجھ سے وکیل بننے کی اجازت چاہی تھی۔ اور میں نے نکاح نامے کے اوپر دستخط کردیے ۔ اگر چہ یہ سب کچھ میں نے موت کے خوف سے کیا تھا ۔ کیونکہ میں نے بھاگنے کا ارادہ کیا ہواتھا اور میں نے اسے شوہر تسلیم کرنے سے اس وقت ہی انکار کیا تھا۔ میں نے وقتی طور پر ٹرخانے کے لیے ہاں کی تھی۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ اس نکاح ہوجاتا ہے۔
ادارہ ہذا سے درخواست ہے کہ میں عدالت سے ایک دفعہ خلع لے چکی ہوں اس صورت میں کہ میرے چچا زاد کو ہم نے مطلع نہیں کیاتھالیکن اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب کے بار ہم اسے مطلع کرکے دوبارہ عدالت میں اسے طلب فرمائیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ عدالت میں حاضر نہ ہوا تو عدالت کی یکطرفہ فیصلے سے ہمیں شرع خلع مل جائیگی؟
نوٹ: ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اول تو یہ نکاح ہی نہیں ہوا، نکاح میں عورت کی اجازت ضروری ہے جو یہاں جان سے مار دینے کی دھمکی کی وجہ سے مفقود ہے اورعورت نکاح کے بعد بھی اپنی عدم رضامندی ظاہر کرچکی ہے۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ مکرہ کا نکاح ہوجاتاہے ، یاتو وکیل نکاح اکراہ سے ثابت ہوجاتی ہے تو عورت کو نکاح فسخ کرانے کا خیار حاصل ہوگا جو اس نے عدالت سے خلع کی صورت میں کرلیا ہے، لہذا عورت اب اپنے چچا زاد کے نکاح سے آزاد ہے۔
ملاحظہ ہو فتاوی عثمانی جلد۲،ص ۴۶۲۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved