• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لفظ بول کرختم کیا ہے سے طلاق کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا نام****ہے اور میری اپنی اہلیہ کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی جس میں اس نے میرے سے خلع مانگا تھا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں کی تھیں کہ:

اللہ کا خوف نہیں ہے آپ کو مجھے اذیت اور تکلیف پہنچا کر سکون مل رہا ہے آپ کو؟ یتیم کے ساتھ مطلقہ کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے آپ، اس طرح مارنے سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ مار دیں۔

میں نے بولا: ان ساری باتوں کا کیا مقصد ہے؟ وہ بولی جو بھی سمجھیں آپ ۔۔ میں نے بولا: تم کو جو لگ رہا ہے صحیح لگ رہا ہے؟۔۔ تو اس نے کہا: روز روز رونے سے بہتر ہے ایک دفعہ رو لوں۔ میں نے بولا: میں تمہارے لئے جتنا بھی کر رہا ہوں بہت ہے اس سے زیادہ نہیں کر سکتا۔ اس نے کہا: میں تھک گئی ہوں زندگی سے یہ بھی نہ کریں آپ، اب ختم کریں یہ قصہ ۔۔ میں نے کہا: جیسے تمہاری مرضی۔۔ اس نے کہا: جہاں سے اٹھایا تھا وہیں پھینک دیں۔۔ میں نے کہا: چلو ٹھیک ہے۔۔ اس نے کہا: منہ سے بول کر ختم کریں۔ میں نے کہا: بول کر ختم کیا ہے۔ اس نے کہا: منہ سے طلاق بول دیں ابھی چلی جاؤں گی۔ میں نے کہا: بول تو دیا ہے پھر جا کیوں نہیں رہی؟ اس نے کہا: جو لفظ ہیں وہ بولیں، جو صحیح لفظ ہے وہ بولیں۔ میں نے کہا: جب ختم ہوگئی تو ختم ہوگئی ڈرامے کیوں کر رہی ہو؟ اس نے کہا: لفظوں اور نیت سے نکاح ہوتا ہے اور طلاق بھی۔ میں نے کہا: بس ختم تو ختم بول دیا میں نے۔۔۔۔اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ جب آپ نے یہ الفاظ بولے تھے کہ بول کر ختم کیا ہے تو اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟

جواب وضاحت: ختم کرنے سے میری نیت طلاق دینے کی ہی تھی کہ تعلق ختم کردیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہوچکی  ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہوگیا ہے لہٰذا میاں بیوی اکٹھا رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔

توجیہ:

سوال میں مذکور الفاظ ’’بول کر ختم کیا ہے‘‘ کنایات طلاق کی دوسری قسم کے الفاظ ہیں جن کا حکم یہ ہے کہ اگر ان الفاظ کے بولنے سے پہلے طلاق کا ذکر چل رہا ہو یا طلاق کا ذکر تو نہ ہو لیکن شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ بول دیئے ہوں تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ بولے ہیں اس لئے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی۔

فتاویٰ ہندیہ (376/1) میں ہے:

وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع كذا في العتابية.

فتاوی شامی (4/521) میں ہے:

والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط ويقع في حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved