• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

لفظ سلام سے پہلے چہرہ موڑنا

استفتاء

امام اگر نماز ختم کرتے وقت سلام سے پہلے اپنا چہرہ مکمل پھیر لے اور اس کے بعد سلام کہے تو کیا اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم آئے گی؟ اس بارے میں وضاحت فرما دیجیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نماز میں سلام پھیرتے وقت لفظ ’’سلام‘‘ کہنا واجب ہے اور دائیں بائیں رخ کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور دائیں بائیں رخ کرتے وقت لفظ ’’ سلام‘‘ کو کہنا سنت ہے۔ لہذا چہرہ پھیرنے اور سلام کے الفاظ ادا کرنے کا عمل ایک ساتھ ہونا چاہیے۔ تاہم اگر کسی نے اس کے خلاف کیا تو نماز بہر حال ہو جائے گی۔

في نهر الفائق (1/ 199):

(واجبها …. و لفظ السلام) تحت قوله للمواضبة و أفاد ”عليكم“ ليس منه كالتحويل يميناً و شمالاً.

و في السعاية (137):

(و لفظ السلام) تحت قوله إن الالتفات يمنة و يسرة ليس بواجب و إنما هو سنة مؤكدة.

و في الشامية (2/ 207):

ترك السنة لا يوجب فساداً و لا سهواً بل إساءة لو عامداً غير مستخف.

و في مراقي الفلاح (282):

(ثم كبر) كل مصل (راكعاً) فيبتدء بالتكبير مع ابتداء الانحناء و يختمه يشرع في التسبيح فلا تخلو حالة من حالات الصلاة عن ذكر مطمئنا (ثم كبر) كل مصل (خاراً للسجود) و يختمه عند وضع جبهته للسجود.

خیر الفتاویٰ (2/ 256) میں ہے:

’’سنت یہ ہے کہ رکوع کو جاتے وقت جھکتے ہی تکبیر شروع کی جائے اور رکوع میں پہنچ کر ختم کریں۔ اور ایسے ہی باقی مقامات میں۔

يكبر مع الانحطاط للركوع. أفاد أن السنة كون ابتداء التكبير عند الخرور و انتهائه عند استواء الظهر‘‘.

فتاویٰ رحیمیہ (5/ 23) میں ہے:

’’رکوع اور سجدے کی تکبیرات کا مسنون طریقہ  یہ ہے کہ رکوع میں جاتے وقت تکبیر بھی ساتھ ساتھ شروع کر دے۔ اور ساتھ ساتھ ختم کرے۔ اسی طرح سجدہ میں جاتے وقت بھی تکبیر ساتھ ساتھ شروع کرے اور ساتھ ہی ختم کرے۔ رکوع اور سجدہ میں پہنچنے کے بعد تکبیر کہنا خلاف سنت ہے۔

فلما فرغ من القراءة يخر راكعاً مكبراً و ينبغي أن يكون ابتداء تكبيره عند أول الخرور و الفراغ منه عند الاستواء. و قال بعضهم إذا أتم القراءة حالة الخرور لا بأس به بعد أن يكون ما بقي من القراءة حرفاً أو كلمة. و الأول أصح.‘‘.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved