• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

لفظ”سجدہ”بول کرامام  کولقمہ دینےسےنماز کا حکم

استفتاء

نماز میں امام کے دوسرا  سجدہ بھولنے پر ایک آدمی نے لفظ”سجدہ”بول کر یاد کرادیا پھر امام کو سمجھ آئی کہ سجدہ رہ گیا ہے،اب مقتدی کے ایسے لقمہ دینے اور امام کےلینے کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذكوره صورت میں امام اور باقی مقتدیوں کی نماز تو ہوگئی اور جس مقتدی نے لفظ”سجدہ ” بول کر لقمہ دیا ہےاس كے متعلق کوئی صریح جزئی تو نہیں ملی البتہ مندرجہ ذیل عبارات سےمعلوم ہوتاہےکہ  نماز درست ہوگئی ہے ۔

توجیہ:صرف لفظ”سجدہ”قران میں صراحتاً تو کہیں پر مذکور نہیں ہے البتہ حروف اور معنی کے اعتبارسے مذکورہے اور فقہاء نے حروف اور معنی کااعتبار کیاہے۔

شامی(2/382)میں ہے:

( ولو جرى على لسانه نعم ) أو آري ( إن كان يعتادها في كلامه تفسد ) لأنه من كلامه ( وإلا لا ) لأنه قرآن ( قوله أو آري ) كلمة فارسية كما في شرح المنية ، وهي بمد الهمزة وكسر الراء : بمعنى نعم كما تقدم ( قوله لأنه من كلامه ) بدليل الاعتياد ( قوله لأنه قرآن ) هذا ظاهر في نعم ، وكذا في آري على رواية أن القرآن اسم للمعنى.

حاشيۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح (ص: 311)میں ہے:

وكذا التهجي فلا تجب عليه ولا على من سمعه لأنه تعداد الحروف وليس بقراءة ولذا لا يجزئ عن القراءة في الصلاة ولكن لا تفسد به الصلاة لأن تلك الحروف موجودة في القرآن كذا في البحر.

تفسیرابن کثیر(سورہ ص آیت:24)میں ہے:

قوله:(وخرراكعا)اي ساجدا.

امدادالفتاوی جدیدمطول(2/430)میں ہے:

سوال:امام کے سہواً قعدہ پر مقتدی بجائے سبحان اللہ کے التحیات للہ کہے جو تعلیم ہے یا یوں کہے بیٹھ جاؤ نماز ہوگئی یا نہیں ؟

الجواب : سبحان اللہ اور التحیات دونوں جائز ہیں اور یہ تعلیم وتلقین التحیات کی نہیں ہے  بلکہ تذکیر ہے؛ البتہ یہ کہنا درست نہیں کہ بیٹھ جاؤ اور اگریہ کلمہ کہدیا تو اس کی نماز تو فاسد ہوجاوے گی اورامام کی نماز میں جواب سوال سابق میں تفصیل آچکی ہے کہ امر شارع سمجھ کر عمل کیا تو مفسد صلوٰۃ نہیں اوراگرمحض اس کی خاطر سے اس کے کہنے پر عمل کرلیا تو مفسدصلوٰۃ ہے۔

امدادالفتاوی جدیدمطول(2/425)میں ہے:

سوال( ۴۵۰): قدیم ۱/۵۳۴-  صلوٰۃ مغرب میں امام نے سہواً دورکعت پر سلام پھیرا اور سلام ہی پھیرنے میں اس کو شبہ ہوا کہ شاید دو رکعتیں پڑھیں مگر عدم تیقن اور اس شبہ کی مرجوحیت کے باعث توجہ نہ کی سلام پھیرنے کے بعد مقتدی نے کہا دورکعت ہوئیں مقتدی کے اس قول سے اس کا شبہ راجح ہوااور امام فوراًکھڑا ہوگیا سب مقتدی بھی کھڑے ہوگئے اور تیسری رکعت پر سلام پھیر کر سجدہ سہو کرلیا نماز ہوئی یا نہیں؟اگرہوئی تو اس مقتدی متکلم کی بھی ہوئی یا نہیں اسی میں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ تکلم عند الاحناف مطلق مفسد صلوٰۃ ہے خواہ لاصلاح الصلوۃ ہویا نہیں ۔ ذوالیدین کی حدیث کس حدیث سے منسوخ ہے؟

الجواب : اس قسم کی جزئیات میں فروع مختلف لکھی ہیں ۔ کما یظھر من مطالعۃ الدر المختار وردالمحتارصفحہ ۵۹۶و۶۵۰ و۶۷۳ ۔ لیکن اس باب میں طحطاوی نے خوب فیصلہ کیا ہے جس سے سب فروع بھی متفق ہوجاتی ہیں ۔ شامی نے صفحہ ۵۹۶میں اسطرح نقل کیا ہے ۔وقال لوقیل بالتفصیل بین کونه امتثل امرالشارع فلاتفسد وبین کونه امتثل أمرالداخل مراعاة لخاطره من غیر نظر لامرالشارع فتفسد لکان حسنااٰه۔ پس جب امام کاشبہ راجح ہوگیا تو امر شارع کے سبب سے وہ کھڑاہوا ہے:  اسلئے اس کی اورمقتدیوں کی سب کی نماز ہوگئی بجز کلام کرنے والے مقتدی کے کہ اس کی نماز بوجہ کلام کے فاسد ہوگئی جیسا حنفیہ کا مذہب مشہور اور متون میں مذکور ہے ۔الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved