- فتوی نمبر: 31-157
- تاریخ: 22 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق
استفتاء
کل صبح جب میں گھر سے باہر جانے لگا تو میری بیوی نے مجھے چار سے پانچ مرتبہ روکا اور کہا کہ نہیں جانا ،لیکن میں نے اصرار کیا کہ مجھے گھر کے ضروری کام سے جانا ہے اور میرا جانا لازمی ہے اس بنا پر میری بیوی نے میرے موبائل سے سم نکال کر میرے سامنے رکھ دی تو اس بات پر مجھے غصہ آیا ،اس کے بعد میں کچھ دیر کے لیے گھر میں ہی بیٹھ کر انتظار کرنے لگا کہ یہ میرا موبائل مجھے واپس کر دے گی ،لیکن اس نے موبائل واپس نہیں کیا جبکہ موبائل کال پر ہی میرے ضروری کام ہونے تھے اس وجہ سے مجھے بہت شدید غصہ آیا تو مجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ میں کیا کہنے والا ہوں اور سوچے سمجھے بغیر میں نے اپنی بیوی کو طلاق،طلاق،طلاق،طلاق چار سے پانچ مرتبہ بول دیا بعد میں مجھے اس غلطی کا احساس ہوا،اب میرے لیے کیا حکم ہے؟
تنقیح:میں نے غصے میں طلاق دی تھی لیکن الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں کہ میں نے کیا بولا تھا اور نہ ہی کوئی خلاف عادت فعل(مثلا توڑ پھوڑ،مار پیٹ وغیرہ) سرزد نہیں ہوا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے آپ کی بیوی آپ پر حرام ہوچکی ہیں لہذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی صلح کی گنجائش ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے غصہ کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن یہ غصہ کی ایسی کیفیت نہیں تھی کہ جس میں شوہر کو کچھ معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور نہ ہی شوہر سے کوئی خلافِ عادت کام سرزد ہوا ہے اور غصہ کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔نیز مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے صرف طلاق طلاق طلاق کہا اور بظاہر بیوی کی طرف نسبت نہیں پائی جارہی لیکن چونکہ شوہر بیوی سے مخاطب تھا اور طلاق بیوی کو ہی دی جاتی ہے اس لیے معناًنسبت پائی جارہی ہے جو طلاق واقع ہونے کے لیے کافی ہے۔
حاشیہ ابن عابدين میں ہے (3/ 248) میں ہے:
ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. انتهی.
بدائع الصنائع (3/ 102)میں ہے:
وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرا فلا يصدق في الصرف عن الظاهر.
در مختار مع رد المحتار(4/439) میں ہے:
وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله.
فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.
در مختار مع رد المحتار(4/509) میں ہے:
[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل
قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}
امداد الفتاویٰ (2/427) میں ہے:
سوال:میں نے حالتِ غصہ میں یہ کلمے کہے ہیں، (طلاق دیتا ہوں، طلاق، طلاق) اور میں نے کوئی کلمہ فقرہ بالا سے زیادہ نہیں کہا، اور نہ میں نے اپنی منکوحہ کا نام لیا، اور نہ اس کی طرف اشارہ کیا، اور نہ وہ اس جگہ موجود تھی، اور نہ اس کی کوئی خطا ہے، یہ کلمہ صرف بوجہ تکرار (یعنی میری منکوحہ کی تائی)کے نکلے، جس وقت میرا غصہ فرو ہوا تو فوراًاپنی زوجہ کو لے آیا، ان دو اشخاص میں ایک میرے ماموں اور ایک غیر شخص ہے، اور مستوراتیں ہیں۔
جواب: چونکہ دل میں اپنی ہی منکوحہ کو طلاق دینے کا قصد تھا، لہذا تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved