- فتوی نمبر: 33-109
- تاریخ: 30 اپریل 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
1۔لنڈے کے کپڑے مثلاً شلوار،قمیص، پینٹ شرٹ، کوٹ، جرابیں اور دستانے بغیر دھوئے پہن سکتے ہیں؟
2۔اگر بغیر دھوئے پہن کر نماز پڑھیں تو کیا نماز ہوجائے گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
2،1۔ لنڈے کے مذکورہ کپڑوں میں اگر ظاہری طور پر نجاست معلوم ہورہی ہو اور وہ مقدار معاف سے زائد ہو تو ان کو دھونا ضروری ہے بغیر دھوئے انہیں پہن کر نماز پڑھنا درست نہیں اور اگر ظاہری طور پر نجاست معلوم نہ ہورہی ہوتو انہیں بغیر دھوئے بھی استعمال کرسکتے ہیں البتہ پینٹ اور شلوار میں بہتر یہ ہے کہ انہیں دھو کر استعمال کیا جائے۔
نوٹ: مقدار معاف کا علم نہ ہو تو اس کے لیے الگ سے سوال کرلیں یا مسائل بہشتی زیور کا متعلقہ حصہ دیکھ لیں۔
توجیہ: لنڈے کے کپڑے اگرچہ عموما غیر مسلم ممالک سے آتے ہیں اور غیر مسلم پاکی کا خیال نہیں رکھتے اس لیے کفار کے استعمال شدہ کپڑوں میں سے شلوار،پینٹ بغیر دھوئے پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن چونکہ یہ بات یقینی نہیں کہ لنڈے کے کپڑے غیر مسلم ممالک کے ہی ہوں اور یہ بھی یقینی نہیں کہ وہ غیر مسلموں کے ہی ہوں کیونکہ شلوار، پینٹ پہننے کا رواج مسلمانوں میں بھی عام ہے دوسرا یہ کہ کفار کے استعمال شدہ پینٹ،شلوار بغیر دھوئے پہن کر نماز پڑھنے میں کراہت تنزیہی ہے نہ کہ تحریمی،مزید یہ کہ یہ کراہت بھی متفقہ نہیں بلکہ امام صاحب رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک ہے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک یہ مکروہ بھی نہیں،اسلیے بہتر تو یہی ہے کہ مذکورہ شلوار،پینٹ وغیرہ کو بغیر دھوئے پہن کر نماز نہ پڑھی جائے تاہم اگر کوئی بغیر دھوئے پہن کر نماز پڑھ لے تو نماز بغیر کراہت کے جائز ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 236) میں ہے:
«ولا بأس بلبس ثياب أهل الذمة والصلاة فيها، إلا الإزار والسراويل فإنه تكره الصلاة فيهما وتجوز، (أما) الجواز؛ فلأن الأصل في الثياب هو الطهارة، فلا تثبت النجاسة بالشك؛ ولأن التوارث جار فيما بين المسلمين بالصلاة في الثياب المغنومة من الكفرة قبل الغسل.
وأما الكراهة في الإزار والسراويل فلقربهما من موضع الحدث وعسى لا يستنزهون من البول فصار شبيه يد المستيقظ ومنقار الدجاجة المخلاة، وذكر في بعض المواضع في الكراهة خلافا، على قول أبي حنيفة ومحمد يكره، وعلى قول أبي يوسف لا يكره»
الدر المختار مع ردالمحتار (1/622) میں ہے:
ثياب الفسقة وأهل الذمة طاهرة
(قوله: ثياب الفسقة إلخ) قال في الفتح: وقال بعض المشايخ: تكره الصلاة في ثياب الفسقة؛ لأنهم لا يتقون الخمور. قال المصنف ” يعني صاحب الهداية “: الأصح أنه لا يكره؛ لأنه لم يكره من ثياب أهل الذمة إلا السراويل مع استحلالهم الخمر، فهذا أولى
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (1/276) میں ہے:
سوال:اکثر انگریزی فوجوں کے غیر مسلم اشخاص کے کپڑے نیلام میں سے مسلمان خرید لیتے ہیں ان سے بغیر دھوئے نماز ہو جاتی ہے یا دھوکر پہننا چاہیے ؟
جواب:بغیر دھوئے پہن کر نماز پڑھ سکتا ہے۔
سوال:انگریزوں کے اونی کپڑے نیلام ہوتے ہیں ان میں شبہ ناپاکی کا ہے آیا ان سے نماز جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: شبہ سے ناپاکی کا حکم نہیں کیا جاتا پس ان کپڑوں کا استعمال کرنا اور ان سے نماز پڑھنا درست ہے مگر بہتر ہے کہ دھو لیے جائیں،البتہ ایسے کپڑے جیسے پاجامہ جن میں نجاست کا گمان غالب ہے اس میں بدون دھوئے نماز نہ پڑھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved