• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

لڑائی جھگڑے میں تین طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

میں (****) نے اپنی بیوی کو لڑائی جھگڑے کے بعد تین سے بھی زیادہ  طلاق والے الفاظ كہ ”  میں پورے ہوش و حواس سے طلاق دیتا ہوں،  طلاق طلاق طلاق طلاق طلاق”  کہے ہیں ۔

آپ سے گزارش ہے کہ اس کا حل بتا دیں۔ طلاق ہو گئی یا نہیں یا پھر کوئی جرمانہ میاں بیوی پر لازم  ہوگا؟  اب  بعد میں معلوم ہوا ہے کہ بیوی کے ہاں بچہ ہونے والا ہے جس کی عمر ماں کے پیٹ میں تقریبا چار ماہ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں  اور تین طلاق کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے، لہذا اب  رجوع یا صلح کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ کسی قسم کے جرمانے سے یہ طلاقیں ختم نہ ہوں گی۔ نیز مذکورہ صورت میں بیوی کے حاملہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑے گا کیونکہ حالتِ حمل  میں بھی طلاق ہوجاتی ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے لڑائی جھگڑے کے دوران بیوی کو صریح الفاط  میں متعدد بار طلاق کا لفظ کہا تو  اس سے تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں  اور نیز  طلاق کے الفاط میں اگرچہ بظاہر بیوی کی طرف اضافت نہیں پائی  جا رہی لیکن معنیً اضافت پائی جا رہی ہے کیونکہ طلاق بیوی کو ہی دی جاتی ہے اور سوال سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ شوہر نے طلاق کے الفاظ بیوی کو ہی بولے ہیں۔

فتاوی ہندیہ(1/473) میں ہے:

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية

بدائع الصنائع(3/293) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة

رد المحتار(4/444) میں ہے:

ولا ‌يلزم ‌كون ‌الإضافة ‌صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته………. ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه…………… وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم.

فتاوی شامی(3/232) میں ہے:

(وحل طلاقهن) اي الآيسة والصغيرة والحامل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved