• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لڑائی جھگڑے کی وجہ سے عدالتی خلع لینے کا حکم

استفتاء

میری بیٹ****کا کورٹ میں خلع کا کیس کیا گیا ہے، *** میں کورٹ میں دعویٰ دائر کیا ، ہمیں ***میں کورٹ سے آرڈر ملا جو کہ یونین کونسل میں جمع کروادیا جس کا فیصلہ یا کوئی مزید پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسی دوران صلح کی بات ہوئی۔ اب دونو ں میاں بیوی اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے  صلح کرکےدوبارہ  اکٹھے رہنا چاہتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اُوپر درج تفصیلات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ عنایت کریں  کہ نکاح دوبارہ ہوگا یا نہیں؟ کیونکہ ہمیں اس کا علم نہیں ۔

بیوی کا بیان:

’’گھریلو لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے خلع کی درخواست دی تھی، سسرال والوں کا رویہ اچھا  نہیں تھا  اور شوہر بھی شہر سے باہر رہتا تھا جب چھٹی پر آتا تھا تو رویہ سخت ہوتا تھا ، صحیح طریقے سے بات نہیں کرتا تھا کیونکہ میرے سسرال والے اس سے میری شکایتیں کرتے تھے، شوہر خرچہ نہیں دیتا تھا اس سے مراد یہ ہے کہ جیب خرچ نہیں دیتا تھا کیونکہ میں خود بھی ملازمت کرتی ہوں، گھر کا کھانا، پینا شوہر کے پیسوں سے چلتا تھا اور رہائش بھی شوہر کی طرف سے تھی ، شوہر کو نوٹس ملے تھے اور وہ عدالت بھی آیا تھا لیکن خلع پر دستخط نہیں کیے تھے‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شرعاً نکاح ختم نہیں ہوا لہٰذا میاں بیوی دوبارہ نکاح کیے بغیر اکٹھے رہ سکتے ہیں، تاہم دوبارہ  نکاح کرلیں تو بہتر ہے تاکہ قانونی طور پر جونکاح ختم ہوچکا ہے اس کی بھی تجدید ہوجائے۔

توجیہ: بیوی کی طرف سے خلع کی درخواست میں دو وجوہات ذکر کی گئی ہیں  اور  یہ دونوں وجوہات فسخِ نکاح کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔ پہلی وجہ شوہر کا سخت رویہ ہے اور شوہر کا سخت رویہ شرعاً فسخِ نکاح کی بنیاد نہیں بن سکتا، دوسری وجہ جیب خرچ نہ دینا ہے  اور جیب خرچ دینا  شوہر کے ذمے نہیں ہے ، شوہر کے ذمے صرف روٹی، کپڑا اور رہائش ہے  اور مذکورہ صورت میں شوہر یہ ذمہ داریاں پوری کررہا ہے ۔ لہٰذا  مذکورہ صورت میں عدالت کا فیصلہ فسخِ نکاح نہیں بلکہ خلع ہے  اور شرعاً خلع شوہر کی رضامندی کے بغیر درست نہیں ہوتا۔

بدائع الصنائع (3/229) میں ہے:

وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

درمختار (5/283) میں ہے:    ‌‌

باب النفقة: هي لغة: ما ينفقه الإنسان على عياله وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس.

البحرالرائق (4/120) میں ہے:

(قوله الواقع به، وبالطلاق على مال طلاق بائن) أي بالخلع الشرعي أما الخلع فقوله عليه الصلاة والسلام الخلع تطليقة بائنة، ولأنه يحتمل الطلاق حتى صار من الكنايات، والواقع بالكناية بائن.

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح) مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved