• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

لڑکیوں کا فیس بک استعمال کرنا کیسا ہے؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

(1)کیا لڑکیوں کےلئے  فیس بک کا استعمال جائزہےجس میں وہ پوسٹ بھی کرتی ہیں لیکن ساتھ میں لڑکوں کو اپنی فرینڈ لسٹ میں ایڈ (یعنی دوستوں کی فہرست میں شامل )کرتی ہیں ۔

(2)اور انکی آئی ڈی پر کومنٹ (کسی تصویر وغیرہ پر تبصرہ )کرنا کیسا ہے؟

(3) اور ساتھ میں ان باکس کا استعمال کرنا جس میں نامحرم سے بات چیت  کرنا اور پوچھنے پر  یہ کہنا کہ ہم کوئی غیر شرعی بات نہیں کر رہے ہیں ،کیسا ہے؟

(4)کیا انٹر نیٹ پر فیس بک،ٹویٹر، انسٹاگرام جیسی سوشل سائٹس پر نا محرم لڑکے لڑکیاں اور مردوعورت ایک دوسرے کو اپنی فرینڈ لسٹ میں ایڈکرسکتے ہیں؟

(5) ایڈ کرنے کے بعد ایک دوسرے کی پوسٹس(فیس بک پر تصویر وغیرہ لگانا)،ٹویٹس (ٹویٹر پرتصویر،ویڈیو،اشتہارات وغیرہ لگانا) ، لائکس (تصویر وغیرہ پسند کرنا)، فیورٹ (تصویر وغیرہ پسند کرنا)شیئر (آگے بھیجنا)کرسکتے ہیں؟

(6)ایک دوسرے سے ٹائم لائن پر یا وال پر(دونوں فیس بک کی آپشنز ہیں)  گفتگو کر سکتے ہیں جسے باقی لوگ بھی دیکھ بھی سکتے ہیں اور پڑھ بھی سکتے ہیں؟

(7)اسمائلیز ،ایمو ٹیکونز[ایمو جیز](مختلف علامات اور شکل و صورت ) کا استعمال کرسکتے ہیں ؟

(8)کیا نا محرم ایک دوسرے کےساتھ بات چیت کرتے ہوئے ہنسی مذاق ،لطیفے قہقہےاور ٹھٹھا لگا سکتے ہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)لڑکیوں کے لیے فیس بک کے استعمال کی مذکورہ صورت جائز نہیں۔

(2)اجنبی مرد و عورت کے مابین صرف ضرورت کی بات جائز ہے اس لئے  نا محرم مرد و عورت کا ایک دوسرے کو بلا وجہ کومنٹ کرنا جائز نہیں، بالخصوص جبکہ یہ کومنٹ تصویر پر ہوں۔

(3)غیر شرعی بات وہ ہے جس کی نہ دینی ضرورت ہو مثلاً کوئی دین کا مسئلہ پوچھنا ہے اور نہ ہی کوئی دنیاوی  ضرورت ہو مثلاًعورت نے دکان دارسے سامان خریدنا ہے ،جو بات دینی یا دنیاوی ضرورت کے تحت نہیں آئے گی وہ غیر شرعی اور نا جائز ہوگی لہذا اگر انکی آپس کی گفتگو غیر شرعی ہوگی تو وہ نا جائز ہوگی ۔

(4) نہیں کر سکتے۔

(5) ناجائز ہے۔

(6)اس کا جواب بھی سوال نمبر 3 کا جواب ہے۔

(7)اسمائلیز ،ایموٹیکونز (علامات) میں سے جو علامات  جاندار کی نمایاں شکل وصورت پر مشتمل ہوں یا کفر کی مذہبی علامت ہوں جیسے صلیب وغیرہ، یا فحاشی کا ذریعہ ہو ں ان علامات کا استعمال جائز نہیں ، ان کے علاوہ دیگر علامات کا استعمال جائز ہے۔

(8)نامحرم سے ہنسی مذاق  ،  لطیفہ اور قہقہے لگاناکسی صورت میں بھی جائز نہیں ۔

در مختار مع الشامی (97/2) میں ہے:فإنا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهمدر مختار(611/9)میں ہے:إذ الضرورات تتقدر بقدرهاشرح المسلم للنووی(1330/3) میں ہے:عن أبي هريرة قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم أو ليلة فإذا هو بأبي بكر وعمر فقال ما أخرجكما من بيوتكما هذه الساعة قالا الجوع يا رسول الله قال وأنا والذي نفسي بيده لأخرجني الذي أخرجكما قوموا فقاموا معه فأتى رجلا من الأنصار فإذا هو ليس في بيته فلما رأته المرأة قالت مرحبا وأهلا فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم أين فلان قالت ذهب يستعذب لنا من الماء…….قال النووى: فيه جواز سماع كلام الاجنبية ومراجعتها الكلام للحاجةفتاوی محمودیہ(229/19) میں ہے:….نا محرم سے بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہ کی جائے ،نگاہ بچا کر بھی بات کی جاسکتی ہے۔فتاوی محمودیہ( 31/19)میں ہے:سوال: اگر عورت غیر مرد کے ساتھ ٹھٹھا (ہنسی ،مذاق)کرتی ہےتو اس کے لئے کیا حکم ہے؟جواب:کسی عورت کا غیر مرد کے ساتھ مذاق یا ٹھٹھا کرنا جائز نہیں ، بہت بے شرمی کی بات ہے۔ مرد کو چاہیئے کہ اس کے جواب میں مذاق کی بات نہ کہے یا اس کو ڈانٹ دے یا خاموش چلا جائے ، اور اس کے باپ بھائی یا شوہر سے کہے کہ اس کو منع کردیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved