- فتوی نمبر: 1-177
- تاریخ: 15 مارچ 2007
- عنوانات: حظر و اباحت > تعلیم و پڑھائی سے متعلق مسائل
استفتاء
گزارش ہے کہ ہمارا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور ہم ۴بھائی اور ایک بہن ہیں ۔ہماری اکلوتی بہن کی شادی نقشبندیہ سلسلہ (جو کہ حضرت ذوالفقار صاحب دامت برکاتھم ) کا ہے کے ایک جوان سے ہوئی ہے ۔بہن جو ڈاکٹر بھی ہے شادی کے بعد اپنے خاوند کے کہنے پر ڈاکٹری چھوڑ چکی ہیں اور ایک مدرسہ میں چار سال کا عالمہ کا نصاب پڑھ رہی ہیں ہماری رہائش جوہر ٹاؤن میں ہے اور بہن روزانہ جوہر ٹاؤن سے ڈیفنس مدرسہ جاتی ہے اب اس کے پیٹ میں ۷ ماہ کا ایک بچہ ہے اور ایک اس کی تقریبا ایک سال کی بیٹی ہے اب اس کی طبیعت نہ چاہنے کے باوجود اس کا خاوند اس کو مدرسہ بھیجنا چاہتا ہے اس میں آپ سے یہ پوچھنا ہے :
1۔ کیا اس کا ۷ ماہ کے پیٹ بچے کے ساتھ مدرسہ جا نا ٹھیک ہے جبکہ اس پر پہلے سے ایک بیٹی کی ذمہ داری اور گھر کا کھانا پکانا وغیرہ شامل ہے۔
2۔ کیا ایک لڑکی جو پہلے سے مذہبی گھرانے سے ہے گھر میں پردہ ہے اور ٹی وی ،تصویروں وغیرہ سے مکمل اجتناب ہے اور ضرورت کا دین اس لڑکی نے گھر سے ،اور بہشتی زیور وغیرہ سے پڑھ سمجھ لیا ہے ۔کیا اس کیلئے چار سال کا کورس فرض ہے یا واجب ، سنت ہے یا نفل ہے؟
3۔ مدرسہ لیجانے کیلئے اگراس کا خاوند جو کہ ایک پرائیویٹ کمپنی کا ملازم بھی ہے اس کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی ڈرائیور اور رکشے پر غیر محرموں کیساتھ جاتی ہے کیا اس طرح جانے کی شریعت میں اجازت ہے ؟
4۔ کیا اس لڑکی کے خاوند کا جو اپنے پورے گھر میں جس میں سب بے دینی کا ماحول ہے ایک مذہبی گھر کی لڑکی پر مدرسہ پڑھنے پر بضد ہے ٹھیک ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
لڑکیوں کو اور عورتوں کو چار سالہ نصاب پڑھوانا کوئی فرض اور واجب نہیں ہے ،بلکہ اسی وجہ سے چار سال تک روزانہ لڑکیوں کا گھر سے باہر نکلنا بھی شرعا پسندیدہ نہیں ہے ۔ واجبی دینی تعلیم کافی ہے جو سوال کے مطابق لڑکی پہلے ہی حاصل کر چکی ہے ۔پھر حمل اور چھوٹی بچی کے ہوتے ہوئے خاوند کا بیوی کو مدرسہ بھیجنے پر اصرار کرنا گناہ پر گناہ کی بات ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved