- فتوی نمبر: 10-344
- تاریخ: 29 دسمبر 2017
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
گذارش ہے کہ ہم اپنے کاروبار سے متعلق آپ سے شرعی رہنمائی چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ کاغذ امپورٹ کرنے کی صورت میں گورنمنٹ کا یہ قانون ہے کہ باہر سے اگر کوئی شخص کاغذ استعمال کے لیے منگواتا ہے آگے بیچنے کے لیے نہیں منگواتا تو ایسے شخص کو گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکس میں پانچ چھ روپے کی ڈسکاؤنٹ مل جاتی ہے بشرطیکہ ایسے شخص کے پاس استعمال کا لائسنس بھی موجود ہو۔
چنانچہ اخبار بنانے والے لوگوں کے لیے باہر سے کاغذ سستا پڑتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص آگے بیچنے کی غرض سے کاغذ امپورٹ کرتا ہے تو اس کے لیے ٹیکس میں ایسی کوئی ڈسکاؤنٹ نہیں ہے۔
زید (فرضی نام)کاغذ بیچنے کے لیے کاغذ باہر سے منگواتا ہے، باہر سے کاغذ منگوانے اور یہاں تک پہنچنے کے جتنے مراحل ہیں اسے ابو بکر(فرضی نام)کلیئر کرتا ہے۔ ابوبکراپنی اس محنت کے عوض زید سے کمیشن وصول کرتا ہے۔ زید کو چونکہ اس طریقے سے کاغذ منگوانا مہنگا پڑ رہا تھا اس لیے ابوبکر نے یہ سوچا کہ یہی کاغذ اگر میں اخبار بنانے والے لوگوں کے لائسنس پر منگواؤں تو زید کو پانچ چھ روپے ڈسکاؤنٹ کے ساتھ ملے گا۔ چنانچہ زید نے عمر (فرضی نام )نامی شخص سے بات کی کہ آپ کسی ایسے اخبار بنانے والے سے بات کر لیں کہ جس کے پاس اخبار کا لائسنس موجود ہو تاکہ زید اس کے لائسنس پر باہر سے کاغذ منگوالے اور ایسی صورت میں زید کو جو بچت ہو گی اس میں سے کچھ مخصوص مقدار بطور کمیشن ابوبکرکو دے گا اور وہ کمیشن تینوں 33-33 فیصد یعنی ابو بکر ، عمر اور اخبار والا آپس میں تقسیم کریں گے۔ عمر نے اخبار والوں سے بات کی اور اخبار والے اس پر راضی ہو گئے، چنانچہ اب یہ کاروبار چل رہا ہے۔ جو کمیشن ملتا ہے وہ تینوں آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔
مذکورہ کاروبار میں عمربھائی کی محنت ہے کہ خریدار کے آرڈر دینے کے بعد اخبار والوں کے پاس جانا اوراس کے بعد اکاؤنٹ میں ایل سی (LC) کھلوانا اور بینک سے متعلق دیگر کاموں کو حل کرنا۔ ابو بکرکا کام ہے کہ کاغذ پہنچنے کے بعد اس کو کراچی ٹرانسفر کرنا اور کراچی ٹرانسفر ہونے کے بعد اب کاغذ کو وہاں سے نکالنا، بینک سے متعلق تمام کاموں کو حل کرنا اور آگے خریداروں تک یہ کاغذ پہنچانا جب کہ اخبار والے صرف اپنا لائسنس اور اپنے اکاؤنٹ کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ابوبکر ، عمر اور اخبار والے کے لیے اس طرح کمیشن لینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو سب کے لیے جائز ہے یا بعض کے لیے جائز ہے اور بعض کے لیے ناجائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ابوبکراور عمر کے لیے کمیشن لینا جائز ہے، اخبار والے کے لیے کمیشن لینا جائز نہیں، اس لیے کہ اخبار والا نہ تو کوئی کام کر رہا ہے اور نہ کوئی ایسی چیز مہیا کر رہا ہے جس کی اسے اجرت مل سکے۔ البتہ اس معاملہ کو درست کرنے کے لیے یہ تینوں حضرات اس طرح کر سکتے ہیں کہ شروع میں شرکۃ الاعمال کا ایک معاہدہ آپس میں کر لیں جس میں یہ درج ہو کہ تینوں حضرات کاغذ خریدنے والے کے لیے کاغذ منگوانے کی ذمہ داری لیں گے اور باہر سے کاغذ منگوانے کی صورت میں جتنے کام ہوتے ہیں ان میں سے کوئی نہ کوئی کام ہر ایک شریک کرے گا، لائسنس فراہم کرنے والے کے ذمے بھی کوئی نہ کوئی کام ہو گا۔ اور اگر کبھی کوئی نقصان ہو گیا تو اس میں بھی تینوں اپنے اپنے کام کی ذمہ داری کے بقدر ذمہ دار ہوں گے۔
بدائع الصنائع: (5/86)
الأصل أن الربع إنما يستحق عندنا إما بالمال و إما بالعمل و إما بالضمان.
وفيه أيضاً:
لأن استحقاق الربح في الشركة بالأعمال بشرط العمل لا بوجود العمل.
وفيه أيضا:
و إن عمل أحدهما دون الآخر بان مرض أو سافر أو بطل فالاجر بينهما على ما شرطا.
شرح المجلة: (1393)
إذا أتلف أو تعيب المستجر فيه بصنع أحد الشريكين يكون ضامناً بالاشتراك مع الشريك
الآخر و المستأجر يضمن ماله أيًّا شاء منهما و يقسم هذا الخسار بين الشريكين على مقدار الضمان ]أي ضمان العمل[ إذا عقدا الشركة على تقبل الأعمال و تعهدها ثلثين و ثلثا يقسم الخسار أيضاً حصتين و حصة……………………………… فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved