- فتوی نمبر: 18-10
- تاریخ: 22 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > کھیل و تفریح
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1)جو لڈو گھر پر بچے کھیلتے ہیں جس میں کوئی شرط وغیرہ نہیں لگائی جاتی کیا وہ درست ہے؟ مطلب اسلام میں جائز ہے؟
2)اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جہاں یہ کھیلی جائے وہاں رزق میں کمی ہوتی ہے برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1)لڈو بذات خود ایک بے کار مشغلہ ہے جس میں سوائے تضییع وقت کے کوئی قابل ذکر دینی یا دنیوی فائدہ نہیں۔اس لیے بلا شرط بھی جائز نہیں ۔اگر بچے بہت چھوٹے ہوں اور اس میں بہت زیادہ انہماک نہ رکھتے ہوں تو ان کے کھیلنے کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔
2)خاص لڈو کے بارے میں ایسی بات معلوم نہیں البتہ گناہ کا کام کوئی بھی ہو اس سے رزق میں کمی کا اندیشہ ہوتا ہے۔حدیث پاک میں ہے۔
مسند أحمد (37/ 111)
من حدیث ثوبان
عن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن العبد ليحرم الرزق بالذنب يصيبه الخ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی کو گناہ کا کرنے کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔
مسائل بہشتی زیور 2/498
وہ کھیل جن میں دینی یا دنیوی کچھ فائدہ نہ ہو ایسے کھیل بھی ناجائز ہیں مثلاً لڈو، کیرم کھیلنا ویڈیو گیم کھیلنا اور کانچ کی گولیاں کھیلنا وغیرہ کہ ان میں فائدہ کچھ نہیں البتہ وقت کا ضیاع ہے اور کبوتر بازی، جانوروں کو لڑانا اور پتنگ بازی وغیرہ کہ ان میں وقت کے ضیاع کے علاوہ اور بہت سی کراہتیں ہیں ۔
آپ کے مسائل اوران کا حل7/354
کیرم بورڈ، لڈو اور تاش بغیر شرط کے ساتھ کھیلنا کیسا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ: “ہم وقت پاس کرنے کے لئے یہ کھیلتے ہیں” اور جو آدمی ہار جاتا ہے تو وہ ان کو بوتل یا چائے پلاتا ہے۔ یہ اسلام کی رُو سے جائز ہے یا نہیں؟
ج… تاش اور اس قسم کے دُوسرے کھیل خواہ شرط باندھے بغیر ہوں، اِمام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ناجائز اور مکروہِ تحریمی ہیں، اور ہارنے والے سے بوتل یا چائے پینا حرام ہے۔
فتاویٰ مفتی محمود 259/11)میں ہے:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین دریں مسائل میں کہ تاش کھیلنا یا لڈو کھیلنا گناہ ہیں یا نہیں اگر ہیں تو کس قدر۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم شرط لگا کر نہیں کھیلتے نکمے ہوتے ہیں وقت پاس کرنے کے لیے کھیلتے ہیں اور اس سے ہم چغلی وغیرہ سے بچے رہتے ہیں اور گناہ کبیرہ سے محفوظ رہتے ہیں کیا ان کا یہ قیاس درست ہے اور بقول ان کے جو شخص تاش کھیل کر گناہ کبیرہ سے بچ سکتا ہے اس کے لئے جائز ہے یا نہیں مفصل بیان فرما دیں ۔
تاش کھیلنا یا لڈو کھیلنا بہت برا ہے اور اگر اس پر ہار جیت کی ہو تو جوا ہے اور بالکل حرام ہے۔ گناہ کبیرہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے ایک گناہ سے بچنے کے لیے دوسرے گناہ کو اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ کامیاب مومن کی شان اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یوں بیان کی ہے۔والذين هم عن اللغو معرضون (ترجمہ)کامیاب مومنین وہ ہیں جو لہو لعب سے اعراض کرتے ہیں مولانا شیخ الہند صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ خود تو لہو لعب میں مصروف نہیں ہوتے بلکہ اگر کوئی اور شخص لہو و لعب میں مصروف ہوں تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں بہر حال تاش سے اجتناب ضروری ہے۔ کذا فی فتاوی دارالعلوم
فتح الملهم 4/382
"فالضابط في هذا عند مشائخناالمستفاد من اصولهم واقوالهم أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، وهذا امر مجمع عليه في الامة متفق عليه بين الائمة … وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة (كما في النرد شير)… كان حراماً أو مكروهاً تحريماً،والغيت تلك المصلحة والغرض لمعارضتها للنهي الماثورحكما بان ضرره اعظم من نفعه وهذا ايضا متفق عليه بين الائمة غير انه لم يثبت النهي عند بعضهم فجوزه و رخص فيه وثبت عند غيره فحرمه و كرهه و ذلك كالشطرنج فان النهي الوارد فيه متكلم فيه من جهةالرواية والنقل فثبت عند الحنفية وعامة الفقهاء فكرهوه ولم يثبت عند ابن السيب وابن المغفل و في رواية عند الشافعي ايضا فاباحوه … وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل به ألهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه هذه خلاصة ما توصل اليه والدي الشيخ المفتي محمد شفيع في احكام القرآن… وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه والله سبحانه اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved