• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ماں کے بعد بچیوں کی پرورش کا حق کس کو ہے؟

استفتاء

کیا کہتے ہیں علماء دین بیچ اس مسئلہ کے: آج سے تقریبا بیس دن پہلے میری بیٹی ****کا تقریبا  36 سال کی عمر میں اچانک ٹریفک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحومہ کے اپنے شوہر ***سے پچھلے کئی سالوں سے اختلافات چل رہے تھے جس کی وجہ، **** کا غیرعورتوں سے ناجائز تعلقات، گھر کے اخراجات میں تنگی دینا تھا۔ مالی پریشانیوں کی وجہ سے میری بیٹی نے وہیں اسلام آباد  میں ایک پرائیویٹ ملازمت اختیار کرلی تھی،****کی اپنے دفتر کی ایک عیسائی لڑکی سے کورٹ میرج کرنے کے بعد، میری بیٹی گذشتہ 3 سالوں سے اپنی دونوں بیٹیوں (ساڑھے دس سالہ ****، اور ساڑھے آٹھ سالہ ****) کے ہمراہ، سسرالی گھر سے کچھ فاصلے پر خاوند سے الگ، کرائے کے ایک مکان میں رہتی تھی۔ اس دوران اس کے خاوند نے اسے گھریلو اخراجات یا بچیوں کی سکول فیس کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں دیا اس دوران ***نے نہ تو ****کو طلاق دی، نہ ہی *****نے خلع کا دعوی کیا اس کے فوت ہوجانے پر اس کے کرائے کے گھر میں جو بھی سازو سامان ہے وہ یا تو اس کے جہیز کا ہے یا اس نے اپنی ذاتی تنخواہ سے بنایا تھا اب بچیوں کا باپ اور دادا دادی ان بچیوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنی نواسیاں ان کے باپ اور دادا، دادی کو دینے کی بجائے اپنی تحویل میں لے سکتا ہوں؟

کیونکہ  *****کے والدین گذشتہ تین سالوں سے تو ****کی عیسائی بیوی کو اپنے گھر نہیں لائے لیکن اگر میری بیٹی کی فوتگی کے بعد وہ اسے گھر لاکر بچیاں اس کے زیر پرورش  دے دیتے ہیں تو ان بچیوں کے ایمان اور مسلم تربیت کو خطرہ ہوسکتا ہے لیکن بقول ******اس نے اپنی بیوی کو مسلمان کر لیا ہوا ہے اور اگر دوسری بیوی کے علاوہ کسی تیسری، مسلمان لڑکی سے شادی کرتا ہے تو یہ بچیاں اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہ کر شاید نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوسکتی ہیں۔

*****کے غیر عورتوں سے تعلقات اور اس کے خاندان میں اور بھی کچھ لوگوں کی ایسی سرگرمیوں کی وجہ سے میری بیٹی نے ہمیں اپنی بچیوں اور اس کی چوبیس گھنٹے کی گھریلو ملازمہ کو بارہا یہ زبانی وصیت کی تھی کہ اگر اسے کچھ ہوجائے تو بچیوں کو ددھیال خاندان میں رکھنے کی بجائے  نانا، نانی کے سپرد کردیا جائے۔

یہ بچیاں کیوں کہ گزشتہ تین سالوں سے اپنے والد اور ددھیال سے الگ رہ  رہی تھیں تو ان کی ذہنی وابستگی اپنے نانا، نانی ہی سے ہے اور اب وہ خود بھی نانا، نانی سے الگ ہو کر ددھیال میں رہنے کو قطعا تیار نہیں۔

*****اپنے مالی حالات کی کمزوری اور اخراجات کی غلط ترجیحات کی بنا پر پہلے بھی لاکھوں روپے کا مقروض تھا اور شاید اب بھی ہے ان حالات میں لگتا ہے کہ بچیوں کی تعلیم و تربیت مناسب انداز میں نہیں کرسکے گا۔

اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات و تعلیمات کے مطابق یہ فرمائیے کہ کیا میں نواسیوں کو اپنی تحویل میں لے سکتا ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قمری لحاظ سے نو سال کے بعد لڑکیوں کی پرورش کا اصل حق ددھیال والوں کو ہے جن میں پہلے باپ مقدم ہے اور دادا وغیرہ الخ تاہم اگر ددھیال والوں کا ماحول بے دینی کا ہو جس کی وجہ سے لڑکیوں کے بے دینی میں مبتلا ہونے کا قوی خدشہ ہو (محض وہم یا خیال نہ ہو) اور ننھیال کا ماحول دینی ہو تو پھر نو سال کے بعد بھی لڑکیوں کی پرورش کا حق ننھیال کو ہوگا۔

در مختار مع ردالمحتار (269/5،259) میں ہیں:

(قال الحصكفي): ”باب الحضانة: بفتح الحاء وكسرها: تربية الولد. (تثبت للأم) النسبية … … …  (ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها … … … أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور … … … ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب، ثم العصبات بترتيب الإرث، فيقدم الأب ثم الجد ثم الأخ الشقيق ثم لأب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه. وإذا اجتمعوا فالأورع ثم الأسن، اختيار سوى فاسق ومعتوه وابن عم لمشتهاة وهو غير مأمون“

(قال الشامي): ”قوله: ‌(سوى ‌فاسق) استثناء من قوله ” ثم العصبات ". قال في البحر: ولا للعصبة الفاسق ولا إلى مولى العتاقة تحرزا عن الفتنة. اه.“

نیز (274/5) میں ہے:

(قال الحصكفي): ”(والام والجدة) لام أو لاب (‌أحق ‌بها) ‌بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية … (وغيرهما أحق بها حتى تشتهي) وقدر بتسع، وبه يفتى … (وعن محمد أن الحكم في الام والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي“

(قال الشامي): ”(قوله: كذلك) أي في كونها أحق ‌بها ‌حتى ‌تشتهى. (قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية“

ردالمحتار (278/5) میں ہے:

”في المنهاج والخلاصة والتتارخانية، وإن لم يكن للصبي أب وانقضت الحضانة فمن ‌سواه ‌من ‌العصبة أولى الأقرب فالأقرب، غير أن الأنثى لا تدفع إلا إلى محرم. اه.“

فقہ اسلامی (مصنفہ حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحدؒ:ص:174) میں ہے:

’’پرورش کا حق  مندرجہ ذیل باتوں سے نہیں رہتا: 1:اس سے بچے کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔ … ۔2:پرورش کرنے کی قدرت نہ ہو ۔3:فاسق و فاجر ہو کہ اس کے فسق و فجور کی وجہ سے بچہ ضائع ہوتا ہو۔ … … … پرورش کا حق کب تک :لڑکا جب تک سات بر س کا نہ ہو تب تک ماں کو اس کی پرورش کا حق رہتا ہے۔ جب سات برس کا ہوگیا تو اب باپ اس کو زبردستی لے سکتا ہے تاکہ وہ لڑکے کی تعلیم و تربیت کرے۔ اور لڑکی کی پرورش کا حق نو برس کی عمر تک رہتا ہے۔ جب نو برس کی ہوگئی تو باپ لے سکتا ہے تاکہ وہ لڑکی کی حفاظت کرے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved