• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مال کی واپسی کا طریقہ کار

استفتاء

*** میں واقع ایک کاسمیٹک اسٹور ہے، جہاں پر کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ریٹیل اور ہول سیل کے اعتبار سے خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

T.S پر مال کی واپسی کی مختلف صورتیں ہیں:

۱۔ کسٹمر T.S سے کوئی کلر(رنگ) جس وقت لے کر گیا  تو اس وقت اس کی قیمت کم تھی جب واپس لایا تو اس کی قیمت بڑھ چکی تھی۔ اب اگر کسٹمر پیسوں کی  واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو اگر اس وقت اس کو وہ آئٹم  100 روپے کا دیا تھااوراب وہ 110 روپے کا ہو گیا تو اسٹور کی طرف سے 100 روپے کا ہی واپس لیا جاتا ہے۔اسی طرح اگر اسی آئٹم کی واپسی پر صرف دوسرا رنگ لینا مقصود ہو تو کسٹمر سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اس وقت اس آئٹم کے دوسرے رنگ کی قیمت بڑھ گئی ہے، لہذا جتنی اضافی رقم اس آئٹم پر بڑھ گئی ہے وہ رقم لے کر کسٹمر کو وہ رنگ تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

۲۔ اسی طرح اگر کسٹمر کے مال واپسی کرنے کی وجہ معقول نہ ہو تو اسٹور کی جانب سے مال کی واپسی کی معذرت کر لی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کسٹمر کہے کہ یہ آئٹم  پسند نہیں آئی۔

۳۔    مال کے ریٹ کم ہونے کی صورت میں T.S کا یہ طریقہ کار ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر اگر کسٹمر کو مال 100 روپے کا دیا تھااورپھر اس مال کا ریٹ کم ہو گیا تو اب کسٹمر کے مال واپسی کرنے کے  وقت اس کا  جو ریٹ  ہوتا ہے، اسی  کے اعتبار سے مال واپس لیا جاتا ہے۔

T.S پر   مال   کو الماریوں میں اس طرز پر رکھا جاتا ہے کہ گاہک خود اپنی ضرورت اور پسند   کے مطابق چیز لے لیتا   ہے اس وجہ سے ایسا بہت کم    ہوتا   ہےکہ گاہک مال   واپس کردے۔

۱۔کیا مال کو  موجودہ قیمت کہ بجائے قیمت فروخت پر واپس  کرنے کا مذکورہ طریقہ درست  ہے ؟نیز  کیا  ما ل تبدیل کرنے کی صورت میں موجودہ قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے اضافی قیمت لینا درست ہے؟

۲۔ اگر کوئی محض پسند نہ آنے کی بناء پر واپسی کرنا چاہتا ہو اور T.S معذرت کرے تو کیا درست ہے ؟

۳۔واپسی کے وقت مال کا ریٹ کم ہونے کی صورت میں کم ریٹ پر واپس کرنا شرعا کیسا ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔مال کو قیمت فروخت پر واپس لینے کا  طریقہ کار درست ہےاور  مال کی تبدیلی کی صورت میں اضافی قیمت لینا  بھی درست ہے۔

توجیہ:جب مال کی تبدیلی مقصود ہو اور اس کی جگہ لیےجانے والے  مال کا ریٹ بڑھ جائے  تو مال کو پرانے ریٹ پر  واپس لےکر اس  کے بعد نئے مال کو نئے ریٹ کے مطابق دےدیا جاتا ہے،گویا  پرانے مال کا  پرانے ریٹ پر اقالہ کرلیاجاتاہےاور نئے مال کی خریدہے ۔

۲۔مذکورہ صورت میں TSپر مال واپس لینا لازم نہیں  تاہم اگر واپس لےلے تو باعث اجر وثواب ہے ۔

۳۔ ریٹ کم ہوجانے کی صورت میں سابقہ  قیمت پر ہی سودا ختم کیا جاسکتا ہے ،کمی بیشی  درست نہیں ۔البتہ  اگر  کوئی عیب پیدا ہوچکا ہو تو اس کے بقدر کمی کی جاسکتی ہے،اور اگر وہ سامان باہمی رضامندی سے  نئے سودے کے ذریعہ واپس خریدلیاجائے تو یہ خریداری کسی بھی قیمت پر ہوسکتی ہے۔ لیکن اس صورت میں آپس میں واپسی کا لفظ بولنے سے گریز کیا جائے اور گاہک سے دوبارہ خریدنے کی بات کی جائے۔

۱۔الھدایۃ(۳/۶۹)

“الإقالة جائزة في البيع بمثل الثمن الأول” لقوله عليه الصلاة والسلام: “من أقال نادما بيعته أقال الله عثرته يوم القيامة” ولأن العقد حقهما فيملكان رفعه دفعا لحاجتهما ۔

۲۔الھدایہ(۳/۷۲)

وکذا اذا شرط الأقل لما بیناہ إلا أن یحدث فی المبیع عیب فحینئذ جازت الإقالۃ بالاقل،لأن الحط یجعل بإزاء مافات بالعیب۔

۴۔الدرالمختاروحاشیۃ ابن عابدین(۵/۱۲۰)

فإن الإقالة فسخ في حق المتعاقدين بيع في حق غيرهما، وهذا إذا كانت بلفظ الإقالة. فلو بلفظ مفاسخة أو متاركة أو تراد لم تجعل بيعا اتفاقا ولو بلفظ بيع فبيع إجماعا۔

۵۔فقہ البیوع(۲/۱۱۳۱)

وھذا الخلاف إنما یتأتی إذا وقعت الإقالۃ بلفظ الاقالۃ،أما اذا وقعت بلفظ الفسخ،أوما فی معناہ من المتارکۃ أو التراد،فلا خلاف فی أنہ فسخ للبیع السابق فیأخذ حکم الفسخ للجمیع۔وکذالک إن عقد بیعاجدیدا بلفظ البیع،فلا خلاف فی أنہ یقع بیعا فی حق الجمیع،ویشترط لصحتہ مایشترط لصحۃ البیع۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved